اِس میں کوئی شک نہیں کہ دن رات مہینے سال ساعتیں صدیاں سب خالق کائنات کی ہیں لیکن حق تعالی نے رمضان المبارک کو ایک خاص فضیلت و روحانیت سے نوازا ہے اِس میں قرآن مجید کو نازل کر کے اِس کوباقی مہینوں سے افضل قرار دیا ہے پھر اِس مہینے میں ہونے والی عبادات کا درجہ ستر گنا بڑھا دیا ہے سرور کائنات ﷺ نے اِس مہینے کو نیکیوں کی بہار کا موسم قرار دیا ہے یعنی جس طرح موسم بہار میں بوسیدہ پتوں کی جگہ تازہ پتے اگتے ہیں شگوفے غنچے پھول کلیاں کھلتی ہیں جس کی وجہ سے پورا ماحول خوشگوار ہو جاتاہے تازگی رنگینی خوشگوار یت کا خاص احساس پیدا ہو تا ہے چاروں طرف دلربا مناظر کے قلب و جان کے ساتھ آنکھیں بھی لطف اندوز ہو تی ہیں اِسی طرح رمضان المبارک میں بھی برکت سعادت سخاوت اخوت کے مناظر نظر آتے ہیں عبادت کا ذوق بڑھ جاتا ہے نوافل قرآن پاک کی تلاوت ذکر اذکار میں دل لگنے لگتا ہے تلاوت قرآن مجید کا شغف بہت بڑھ جاتا ہے معاشرہ روحانی نظم و ضبط میں رنگا نظر آتا ہے سحر خیزی کے لمحات بہت روح پرور افطاری کے مناظر ایمان سے لبریز ہو تے ہیں اِس طرح رمضان المبارک کے آنے سے پورا ماحول بدل جاتا ہے جس طرح موسم بہار میں پھولوں رنگوں میں بہار آتی ہے پرندوں کی چہچہاہٹ کے سریلے نغموں سے فضا سرور آفرین ہو جاتی ہے اِسی طرح رمضان میں مسلمانوں کے مزاج میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے بہار آنے کے باوجود پرانے پتے نہ جھڑیں خشک ٹہنیاں سبز نہ ہو شگوفے کلیاں نہ پھوٹیں تو اس کو موسم بہار کون کہے گا اِسی طرح نیکیوں کا موسم بہار آئے مسجدوں کی رونق نہ بڑھے ظاہر و باطن نہ بدلیں ذوق عبادت نہ بدلے جذبہ مہر و محبت نہ پھلے پھولے تو شعبان اور رمضان میں کیا فرق محسوس ہو گا نہ اندر سے چشمہ تسلیم پھوٹے اور نہ ظاہر و باطن میں مثبت انقلاب آئے تو کیا فائدہ شافع دو جہاں نبی رحمت ﷺ کا فرمان ہے کہ رمضان صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے صبر یعنی ضبط نفس تاکہ انسان کو غصہ آئے جذبات کنٹرول سے باہر ہوں تو خود پر ضبط نفس تاکہ انسان کو غصہ آئے جذبات کنٹرول سے باہر ہوں تو خود پر ضبط کر نے کو مشتعل کر ے بھی تو آمادہ جنگ نہیں ہو نا کہ یہ آداب رمضان کے منافی ہے زندگی کے ہر معاملے میں بہت محتاط ہو کہ میں روزے سے ہو ں روزے میں انسان کے اندر خداکے حاضر ناظر ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے کیونکہ روزہ اللہ کے لیے رکھا جاتا ہے اور اللہ ہی گواہ ہو تا ہے پھر یہ صبر ضبط اور خدا کے حاضر ہونے کا احساس مزاج کا حصہ بن جائے تا کہ سال کہ باقی مہینوں میں بھی عبادت کا ہی ذوق قائم و دائم رہے رمضان المبارک کا آخری عشرہ اختتامی دنوں میں داخل ہوگیا اور باقی مسلمانوں کی طرح مجھے بھی اداسی نے گھیرا ہوا تھا کہ رمضان المبارک ختم ہو رہا ہے پتہ نہیں اگلے سال نصیب ہو کہ نہ ہو میں انہی سوچوں میں افطاری کے بعد آرام کر رہا تھا کہ دروازے پر کسی نے آکر ڈور بیل بجائی تو میں نے جا کر دروازہ کھولا تو خوشگوار منظر میرا منتظر تھا زندگی میں بہت سارے لوگ آپ کی زندگی میں آتے ہیں اُن میں سے زیادہ کے ساتھ آپ صر ف گزارا کرتے ہیں کچھ کو برداشت کر تے ہیں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ بار بار ملنا چاہتے ہیں ان کی کمپنی میں بیٹھنا انجوائے کرنا چاہتے ہیں ایسا ہی جیتا جاگتا زندگی سے بھر پور جوان شخص محمد سلیم مسکراتے چہرے کے ساتھ ہاتھ میں شاپر پکڑے کھڑا تھا اُسے دروازے پر دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا اِس مردہ بانجھ معاشرے میں ایسا انسان جو مردہ معاشرے کی رگوں میں زندگی کی حرارت پھونکتے ہیں میں گرم جوشی سے گلے ملا اور اُس کو لے کر اپنے حجرے میں لے آیا گھر میں مختلف مشروبات اور لوازمات کا کہہ کر اوپر حجرے میں اُس کے سامنے بیٹھ گیا تو سلیم نے مسکراتے ہوئے صحت مند مزے دار کھجوروں اور عطرکا شاپر میری طرف بڑھایا اوربولا پروفیسر صاحب بہت معذرت بن بلائے آپ کی تنہائی میں مُخل ہوا ہو ں آپ تو جانتے ہیں میں ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عید شاپنگ کے لیے پاکستان آتا ہو ں ہر بار کوشش ہوتی ہے کہ آپ کی زیارت بھی ہو جائے اِس لیے میری اِس گستاخی کو معاف کریئے گا اِسی دوران دودھ سوڈے کا جگ آگیا تو میں ٹھنڈ امشروب گلاس بھر کر اُس کے ہاتھ میں دیا اور پیار سے کہا جناب آپ کو ہر وقت بلا اجازت آنے کی اجازت ہے بلکہ آپ نے تو میری شام شاندار کر دی ہے حضور آپ نہیں آئیں گے تومیں ناراض ہو جاؤں گا سلیم نے ٹھنڈا میٹھا مشروب لبوں سے لگا یا تومجھے دس سال پہلے کا سلیم یاد آگیا یہ اور اِس کا دوست پڑھائی کے بعد دونوں ملازمت کی تلاش میں تھے اِس کے دوست کا نام مراد بھٹی تھا روحانی راہنمائی کے لیے میرے پاس آئے تومیں نے مشورہ دیا تم دونوں کی ایجوکیشن مذل ایسٹ میں بہت کار آمد ہے اور ویسے بھی سلیم تم کو ہجرت سوٹ کر تی ہے یہاں پر ذلیل ہونے کی بجائے فوری طور پر مڈل ایسٹ چلے جاؤ شروع میں تو سلیم نے انکار کیا لیکن چند مہینوں میں ہی میرے اصرار کرنے پر چلا گیا اللہ کی مدد شامل حال تھی دوسال کے اندر ہی بہت اچھی جاب مل گئی پھر اِس نے اپنے دوست مرا د کو بھی اپنے پاس بلا لیا مراد ایک ہوٹل پر ملازم ہوا چھ ماہ میں ہو ٹل کا مالک واپس اپنے ملک چلا گیا تو ہو ٹل مراد کو دے گیا مراد نے خوب محنت کی ایک سال کے اندر ہو ٹل خوب چلنے گا تو مراد نے سلیم سے کہا تم بھی میرے ساتھ ہو ٹل پر آجاؤ ہم دونوں خاندانوں کا اچھا گزارا ہو جائے گا دونوں نے شادیاں کیں اور کامیابی سے ہوٹل کو چلانے جب بھی پاکستان آنے مُجھ سے ملنے دونوں کی دوستی عشق میں بد ل گئی تھی دونوں ایک دوسرے کے بغیر سانس نہیں لیتے تھے ایک جیسے کپڑے جوتے گھڑیاں جب بھی ملتے میں کہتا یا راللہ آپ دونوں کو نظر بد سے بچائے پھر دونوں کی جوڑی کو نظر لگ گئی چار سال پہلے مراد ایک روڈ حادثے میں انتقال کر گیا جب مجھے پتہ چلا تو میں دونوں کی دوستی محبت کو جانتا تھا کہ اب سلیم کیسے زندہ رہے گا سلیم کی بیوی کا مُجھے فون آیا سر اگر آپ نے سلیم کو حوصلہ نہ دیا تو یہ خود کشی کرلے گا خدا کے لیے سلیم کو بچا لیں سلیم کو بچالیں سلیم پاکستان آیا ہوا تھا میں اِس سے ملنے اِس کے گھر گیا تو زندہ لاش کی طرح پڑا تھا میں نے صرف ایک بات کی کیا تم اپنے دوست کے بچوں کو بے رحم معاشرے کے حال پر چھوڑنا چاہتے ہوں تو اللہ کے پاس جا کر سلیم کو کیا منہ دکھا ؤ گے میر ی بات سلیم کے دل کو لگی وعدہ کیا کہ میں اب سلیم کے بچوں کے لیے زندہ رہوں گا مُجھ سے مشورہ کر کے مرا دکی فیملی کو لا ہور میں کرا ئے کے مکان میں شفٹ کیا خود اپنی فیملی کے ساتھ باہر چلا گیا جا کر خوب محنت کر کے کمائی کرنے لگا سال بعد واپس آیا تو مُجھ سے ملنے آیا کہ سر اب میں ہر کام اورشاپنگ اپنے بچوں کے ساتھ مراد کے بچوں کے ساتھ کروں گا پھر سال گزرے گئے محمد سلیم اپنے وعدے پر پکا قائم رہا ہر سال پاکستان رمضان عید سے پہلے آتا اپنی بیگم کے ساتھ مراد کے بچوں کی خوب شاپنگ کر تا آج بھی اُسی سلسلے میں میرے سامنے بیٹھا تھا بو لا سر میں نے دونوں خاندانوں کو شاپنگ مال اتارا اور خود آپ کو سلام کر نے آگیا آپ مجھے ہمت نہ دینے تو آج میرا اور میرے ڈوست کا خاندان یتیمی کی زندگی میں پس رہے ہوتے پھر سلیم بہت باتیں کر کے چلا گیا تو میں سوچھنے لگا ہمارے دائیں بائیں کتنے لوگوں کو محمد سلیم جیسے فرشتوں کی ضرورت ہے جو ضرورت مندوں کو عید کی شاپنگ کرا دیں۔