لاہور(نیوز رپورٹر)نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے عہدے کا حلف اٹھا لیا، اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے وزیر اعلی پنجاب سے حلف لیا۔وزیر اعلی کی تقریب حلف برداری میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن)کے دیگر رہنما بھی شریک ہوئے، اس سلسلے میں گورنر ہاؤس میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے۔ نومنتخب وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں، چاہتے ہیں لوگوں کو ریلیف فراہم کریں۔تقریب حلف برداری کے بعد میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ ہمارے پاس وقت تھوڑا ہے اور چیلنجز بہت زیادہ ہیں،گزشتہ حکومت نے صحت اور تعلیم سمیت کئی چیلنجز چھوڑے ہیں، امن و امان کی صورتحال کا بھی مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام چینلجز کو پورا کرنا ہے، یہ صرف (ن) لیگ کی حکومت نہیں ہے، اس میں اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں، یہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جس وجہ سے سب کومل کر فیصلہ لینا ہوتا ہے۔وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبہ بہت بڑا ہے اور چیلنجز بہت زیادہ ہیں، چاہتے ہیں انہیں پورا کریں اور لوگوں کو ریلیف دیں۔خیال رہے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو حمزہ شہباز سے وزیر اعلی کے عہدے پر حلف لینے کا حکم جاری کیا تھا۔حمزہ شہباز 16 اپریل کو 197 ووٹس کے ساتھ وزیر اعلی منتخب ہوئے تھے، تاہم گورنر پنجاب عمر سرفرازچیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلی عثمان بزدارنے وزیر اعظم کو استعفی دیا تھا جس کے بعد استعفی منظور نہیں کیا جاسکتا اور یہ غیر آئینی تھا۔علاوہ ازیں گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلی کے انتخاب کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور حقائق نے وزیر اعلی کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔عمر سرفراز چیمہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے میرا ذہن تذبذب کا شکار ہے۔حمزہ شہباز کی جانب سے حلف اٹھانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سیرجوع کیا تھا، تاہم دو بار عدالتی فیصلوں کے باوجود بھی حمزہ شہباز سے حلف نہیں لیا گیا تھا۔21 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے عارف علوی کو ہدایت جاری کی تھی کہ گورنر پنجاب موجود نہیں تو حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے نمائندے اور جگہ کا تعین کیا جائے۔گورنر پنجاب اور صدر مملکت کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد میں ناکامی پر حمزہ شہباز نے ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ سے مداخلت کی استدعا کی تھی۔تیسری درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے شہریوں اور حمزہ شہباز کے بنیادی حقوق کے لیے ہائی کورٹ معاملے میں مداخلت کرے اور صوبے کو آئینی طریقے سے چلانے کے لیے حلف لینے کا حکم دیا جائے۔علاوہ ازیں گزشتہ روز عدالت نے حکم دیا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو ہدایت کی ہے کہ وہ کل بروز ہفتہ صبح 11بج کر30 بجے پنجاب کے نومنتخب وزیراعلی حمزہ شہباز سے حلف لیں گے۔دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے 28 مارچ کو عہدے سے مستعفی ہونے والے سردار عثمان بزدار کا استعفی غیر آئینی قرار دیتے ہوئیاسے مسترد کردیا گیا ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلی حمزہ شہباز گورنر ہاس عثمان بزدار کے جانشین کے طور پر حلف اٹھانے والے تھے، گزشتہ شام لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ان سے حلف لینے کی ہدایت کی تھی۔وزیر اعلی نے استعفی مسترد ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور وزرا کو اپنے اپنے عہدے واپس سنبھالنے کی ہدایت بھی دی۔عدالت کے احکامات کے باوجود حلف لینے سے انکار کرنے والے گورنر نے اس تازہ پیشرفت کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہی کو ایک خط میں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔اسپیکر کو لکھے گئے خط میں عمر چیمہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ حالیہ پیش رفت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کی روشنی میں مجھے لگتا ہے کہ گورنر کے عہدے کے لیے نامناسب ہو گا وزیراعلی سردار عثمان بزدار کے مبینہ استعفی سے متعلق سچ اور درست حقائق آپ کے علم میں نہ لانے تک استعفی منظور کروں۔28 مارچ کو عثمان بزدار کی جانب سے استعفی پیش کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر عمر چیمہ نے نشاندہی کی کہ جس کمیونیکیشن کو استعفے کا نام دیا گیا تھا، وہ وزیر اعظم کے نام ایک پرنٹ شدہ خط تھا۔انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 130 (8) کے تحت کمیونیکیشن کو استعفی کے خط کے تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مذکورہ شق کے مطابق استعفے کا خط درست ہونے کے لیے اسے ہاتھ سے لکھا جانا اور گورنر کو مخاطب کرنا ہوتا ہے۔پنجاب کے سابق وزیر تعلیم مراد راس نے قبل ازیں ایک ٹوئٹ میں اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمر چیمہ نے عثمان بزدار کی کابینہ کو بحال کر دیا ہے اور بعد میں صوبائی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا ہے۔خیال رہے عثمان بزدار نے 28 مارچ کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے اہم ترین ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اپنا استعفی وزیر اعظم کو دیا تھا۔وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا تھا کہ وزیر اعلی عثمان بزدار نے اپنا استعفی وزیر اعظم کو پیش کردیا ہے اور عمران خان نے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا وزیر اعلی نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بعد ازاں وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ (ق)کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہی کی ملاقات ہوئی تھی اور اسی ملاقات میں وزیراعظم نے پرویز الہی کو نیا وزیر اعلی پنجاب نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے بعد وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف پنجاب اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین کے دستخط کے ساتھ سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کو جمع کرائی گئی تھی۔واضح رہے عثمان بزدار نے 20 اگست 2018 کو وزیر اعلی کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔