اپنے ملک وعوام سے وفا کرنا سنت ہے عبادت میں شمار ہے پاکستان ہر پاک رزق کھانے والے پاکستانی کا عشق ہے کوئی بھی عاشق جب اپنے معشوق کو درندوں سے نچتا ہوادیکھتا ہے تو خون کھولتا ہے میں یہ منظر جب سے ہوش سنبھالا ہے روز دیکھتے ہوئے سہتا ہوں میں اندر سے زخمی ہوں مجھے کبھی کبھی پورا ملک ہی کشمیر لگتا ہے جس پر کرپٹ مفاد پرست اقتدار کی حوس میں بہکے لوگوں کا محب وطنی کے نام پر قبضہ ہے اس قبضے کی وجہ سے اس احساس میں جی رہا ہوں جیسے کسی رزق حلال کمانے والی جتنی رُوح کو زبردستی مہنگائی زدہ حقوق کے فقدان کی جہنم میں جینے پر مجبور کیا جا رہا ہو اور مقصد پاکستان کو مضبوط بنانا بتایا جاتا ہوچاہے غریب پاکستانی خودکشی کریں بھوکے مریں بیروزگاری کی زندگی میں جکڑے رہیں ان کو کوئی سروکار نہیں جبکہ حکومت کا حقیقی وجود ہی غریب کے وجود کو سہارا دینے نام ہوتا ہے جن کے بچے بنیادی سہلولتوں سے محروم رہتے ہیں پاکستان کے نام پر پاکستانیوں کی زندگی عذاب بنانا موجودہ سیاست کا مذہب بن چکا ہے غریب پاکستانی اپنی بامشکل کمائی سے خوراک کے لوازمات ہی پورے نہیں کر پاتے اور انہی غریبوں کے حقوق میں نعرے لگانے والے سیاسی نوسرباز امیر ہوتے جا رہے ہیں چاہے وہ جمہوریت کے جس مقام پر بھی فائز ہو جس جماعت کا بھی نمائندہ ہو مفاد کے حصول سے خالی نہیں حکومتی ترجمان برے ح الات پر بھی درست حالات کی گواہی دیتے نہیں تھکتے جبکہ جن غریبوں کے لیے حکومت کا اصل وجود قائم ہوتا ہے ان سے کوئی گواہی نہیں لیتا جو حالات کے سچے ترجمان ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو جھٹلانے کے لیے حکومت نے اپنے ترجمان رکھے ہوتے ہیں جن کا ہر بیان آقاؤں کے حق میں نکلتا ہے۔سودی قرضوں سے ترقی دلانے والے مسلمانوں کے لیڈر بنے ہوئے ہیں جبکہ عوام کو تکلیف دئیے بغیر پاکستان کی اپنی کمائی سے پاکستان کے حالات بہتر بنانے والاحقیقی لیڈر ہوتا ہے مگر یہاں سارے اتنے نالائق لیڈر آتے ہیں جو پاکستان کی کاشت اور ایجادات سے نہیں بلکہ ٹیکسوں کی ناروا بھرمار سے بجٹ پورا کرتے ہیں اقتدار کی بھوک اور شہرت کی تشنگی میں ایسے ایسے حقائق پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ جیسے براہ راست شیطان سے راہنمائی حاصل ہو۔عوام بدلتے ہوئے زمانے اور ترقی کرتے ہوئے انسانی دماغوں میں نہ ڈھل سکیں خدمت نہ کر پانے والے نمائندے کو جرمانے کے ساتھ سیاسی سسٹم سے باہر پھینک سکیں اسی لیے ان کے حقوق اور وسائل پر سیاسی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے انہیں علم و شعور کی مفت تعلیم اسی لیے نہیں دی جاتی کہ یہ انگریزوں اور ہندوں سے آزادی پانے والے لوگ سیاستدانوں اور اداروں میں بیٹھی کرپٹ بیوروکریسی کے غلام بنے رہیں جیسے یہ ملک انہی کی جاگیر ہو اورانہی کے راج واسطے حاصل کیا گیا ہو۔ میں ہر بڑے سیاسی آدمی کو بڑی شخصیت نہیں سمجھتاکیونکہ ان میں اکثریت جمہوری روپ دھارے شعبدہ باز ہیں جو مقامی عوام میں ایک دوسرے کی مخالفت کے جنون کا فائدہ اٹھانے کی لیے باہر کی غلامی کے طوق ڈالنے کے موقع نہیں چھوڑتے۔یہ معزز سیاسی لٹیرے اخلاقی لبادے میں کھلم کھلا لوٹتے رہے ہیں اور موجودہ دور میں سیاست جس قدر غلیظ اور سپورٹر جس قدر بداخلاق ہوئے ہیں اس کی گواہی شوشل میڈیا روز دیتا ہے سیاسی جماعتوں کے سپورٹرجمہوریت کی بندوق سے بادشاہت کی سوچ لے کر مخالف سیاسی افراد کے آئینی جمہوری حقوق کو قتل کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ان میں کوئی یہ جگر گردہ نہیں رکھتا کہ چوکنے کی صورت میں اپنے قائد کو صیح راہ سے آگاہ کرکے فطرت کا ہاتھ بٹائے اور انسانی خدمت کا جذبہ جگا کر انسان کو انسان کا معاون و مددگار بنا دے۔شہری بجلی کا بل لیٹ کر دیں تو جرمانہ مگر محکمہ بجلی یا سروس جتنی مرضی لیٹ کردے اسے کوئی جرمانہ نہیں اگر قومی غیرت کا ترازو سب کو برابر تولے تو ہر تنخواہ لینے والا سرکاری ملازم اپنے مہینے بھر کے کام کی رپورٹ اس ثبوت کے ساتھ پیش کرکے تنخواہ وصول کرے کہ اس کی محنت معاوضے کے برابر صرف ہوئی ہے کبھی کسی بڑی تنخواہ کے ملازم نے کہا ہے کہ میں نے اس کا حق ادا نہیں کیا لہذہ یہ مجھ پر حرام ہے قومی خزانے میں واپس کرتا ہوں مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا ہونی چاہے مگر مزدور کا بھی روزی حلال کرنے کے لیے پسینے سے شرابور ہونا ضروری ہے محب وطنی کے دعویدار حرام نہیں کھاتے۔حقیقی جمہوریت تو شہریوں کے مفاد پر دلائل سے اخلاقی تبصروں کے ساتھ بے فیض حکمرانوں کو احتساب تک لے جانے کی ملکیاور عوامی ترقی سکھاتی ہے بدقسمتی سے ایک بھی جماعت کا لیڈر آئین کا حافظ نہیں ہے جو اپنے سپوٹروں کو جمہوریت کا شعور دے اقتدار کی حوس کے مریضوں میں فقط وفاداری اور خرچ کی حیثیت دیکھی جاتی ہے۔الیکشن جیتنے کے لیے جس قدر دولت خرچ ہوتی ہے اور جس قدر غور و فکر کیا جاتا ہے یہ محنت اور کاوش انسانی بہبود اور انکشافات کائنات پر خرچ ہو تو دنیا سستی ضرورت انسانی کی سہولتوں کا جہان بن جائے۔مگر ابھی اقتدار کی حوس کے درندوں کے نشے نہیں ٹوٹے یہ ابھی انسانی جانوں دلوں دماغوں صلاحتوں کی قیمت سے آگاہ نہیں اور اگر آگاہ ہوں بھی تو کوئی ایسی قوت سامنے نہیں آتی جو ان منہ زور بپھری سیاسی قوتوں کو متحد طور پر سمجھنے سوچنے پر مجبور کر دے کہ یہ سارے حضرت محمد صلعم کی تعلیمات پر آجائیں۔