سری لنکا کی عوام نے جب سے اپنے کرپٹ حکمرانوں کا حشر نشر کیا ہے تب سے ہمارے ہاں بھی عوام کی سوچ تبدیل ہورہی ہے پاکستان سے لوٹا گیا پیسہ اندرون ملک اور بیرون ملک کرپٹ افراد اپنی عیاشیوں کے لیے استعمال کررہے ہیں جبکہ یہاں ماسٹر ڈگری اٹھائے پڑھا لکھا نوجوان جب سارا دن محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی دو وقت کی روٹی پوری نہیں کرپاتا تو اسکے اندر بھی چوری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے بڑے بڑے لٹیروں کا رہن سہن دیکھ کر اسکے اندر بھی زندگی انگڑائیاں لینے لگتی ہے مگر کسی کی آشیر بعد کے بغیر جب وہ نوجوان کوئی نہ کوئی غلط اقدام اٹھا لیتا ہے تو پھر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسکے پیچھے لگ جاتے ہیں تھانوں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے ٹھیکیدار اسے پکڑنے کے بعد اپنا حصہ مانگتے ہیں مگر وہ تو کب کا سب کچھ کھا پی چکا ہوتا ہے آخر کار پولیس اسے عدالتوں میں گھسیٹنے کے بعد جیل تک پہنچا دیتی ہے جہاں پہنچ کر اس چھوٹے سے ملزم کی تربیت زمانے کے بڑے بڑے نوسر باز کرتے ہیں جیل میں جاکر چور اور ڈاکو شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ بڑے فخر سے اپنے اپنے کارنامے سناتے ہیں اربوں روپے کے فراڈ میں پکڑے جانے والے جیل میں سب سے زیادہ معزز اور معتبر بن جاتے ہیں انہیں جیل کے اندر بھی پروٹوکول ملنا شروع ہوجاتا ہے اور چھوٹے چور انکے مشقتی بن کر اپنی اگلی زندگی کی پلاننگ کرتے ہیں ہر ماہ ایک بار جیل کے اندر سیشن جج صاحب آکر عدالت لگاتے ہیں چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کورہائی مل جاتی ہے جو ملزم جیل میں سوا مہینے کا چلہ کاٹ لیتا ہے وہ پھرباہر آکر جرائم کی اس یونیورسٹی میں سیکھا ہوا سبق عملی طور پر آزماتا ہے کچھ لوگ پھر موقعہ واردات سے پکڑے جاتے اور کچھ نکل جاتے ہیں نکل جانے والے اپنی کمائی ہوئی دولت سے باقیوں کے حصے نکال کر پھر بے فکری سے وارداتیں کرتے ہیں ہمارا عدالتی نظام بھی بڑا خوبصورت اور کمال کا ہے کچھ فیصلے جھٹ پٹ اور بعض پر سماعت ہی دھائیوں بعد شروع ہو پاتی ہے پسند اور ناپسند سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو عدالتوں میں کیسوں کی بھر مار ہے ایک جج روزانہ سینکڑوں کیس سنتا ہے وہ بھی انسان ہے ربوٹ نہیں عدلیہ کے ساتھ اسکی اپنی نجی زندگی بھی ہے اور بچوں کو بھی وقت دینا ہوتا ہے اس لیے بعض کیس کئی سالوں تک چلتے رہتے ہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت تک پہنچتے پہنچتے دوسری نسل بھی میدان میں آچکی ہوتی ہے کچھ لوگوں کو انکی زندگی میں ہی انصاف مل جاتا ہے تو کچھ افراد کو پھانسی لگنے کے بعد بے گناہی کا سرٹیفیکیٹ دیدیا جاتا ہے اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ سب کی مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے جہاں کیسوں کو لٹکانے کی بجائے جلد سے جلد ان پر فیصلے دیے جارہے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں آصف زرداری کیخلاف 25 سال پرانے کیسز پر نیب اپیلیں ایک بار پھر سماعت کے لیے مقرر ہو گئیں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ سماعت کرے گا عدالت نے نیب کو مزید عدالتی وقت ضائع نہ کرنے اور کیس کی تیاری کی ہدایت دے رکھی ہے نیب نے آصف زرداری کی ارسسز ٹریکٹر،اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں بریت کو چیلنج کیا ایس جی ایس اور کوٹیکنا ریفرنسز میں بھی آصف زرداری کی بریت کے خلاف نیب اپیل زیر سماعت ہے نیب نے سات سال قبل آصف زرداری کی بریت کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے پاکستان میں عدالتی نظام کے دو طبقات ہیں اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت (یا زیریں) عدلیہ اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس پر مشتمل ہے جس میں سپریم کورٹ سب سے اوپر ہے چاروں صوبوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیے ایک ہائی کورٹ ہے۔ پاکستان کا آئین اعلیٰ عدلیہ کو آئین کے تحفظ اور دفاع کی ذمہ داری سونپتا ہے جبکہ ماتحت عدلیہ سول اور فوجداری ضلعی عدالتوں، اور متعدد خصوصی عدالتوں پر مشتمل ہے جو بینکنگ، انشورنس، کسٹم اور ایکسائز، سمگلنگ، منشیات، دہشت گردی، ٹیکسیشن، ماحولیات، صارفین کے تحفظ اور بدعنوانی کا احاطہ کرتی ہیں۔ فوجداری عدالتیں کرمنل پروسیجر کوڈ 1898 کے تحت بنائی گئی تھیں اور دیوانی عدالتیں ویسٹ پاکستان سول کورٹ آرڈیننس 1962 کے ذریعے قائم کی گئی تھیں یہاں ریونیو عدالتیں بھی ہیں جو ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے تحت کام کرتی ہیں حکومت انتظامی عدالتیں بھی قائم کر سکتی ہے اور مخصوص معاملات میں خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرنے کے لیے ٹربیونلز۔2017 تک پاکستان کی عدلیہ 20 لاکھ مقدمات کے بیک لاگ کا شکار ہے جن کے حل ہونے میں اوسطاً دس سال لگتے ہیں کچھ اندازوں کے مطابق، 90% دیوانی مقدمات میں زمین کے تنازعات شامل ہیں جس کی وجہ پاکستان میں زمین کا مناسب رجسٹر نہ ہونا ہے سپریم کورٹ 1956 میں قائم ہوئی پاکستان کے عدالتی درجہ بندی میں سپریم کورٹ قانونی اور آئینی تنازعات کا حتمی ثالث ہے عدالت ایک چیف جسٹس اور سولہ دیگر ججوں پر مشتمل ہے عدالت میں قائم مقام ججوں کے ساتھ ساتھ ایڈہاک ججوں کی تقرری کا بھی انتظام ہے۔ اسلام آباد میں اس کی مستقل نشست کے ساتھ ساتھ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں برانچ رجسٹریاں ہیں اس کے پاس متعدد ڈی جیور اختیارات ہیں جو آئین میں بیان کیے گئے ہیں، بشمول اپیل اور آئینی دائرہ اختیار، اور انسانی حقوق کے معاملات کو آزمانے کے لیے از خود اختیار فوجی حکمرانی اور آئینی معطلی کے کئی ادوار کے ذریعے عدالت نے خود کو فوجی طاقت پر ایک حقیقی جانچ کے طور پر بھی قائم کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی نگرانی سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے۔ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت 1980 میں تمام پاکستانی قوانین کی چھان بین کرنے اور یہ تعین کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ آیا وہ ”قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی اقدار” کے مطابق ہیں یا نہیں اگر کوئی قانون ناپسندیدہ پایا جاتا ہے تو عدالت اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے متعلقہ حکومت کو مطلع کرتی ہے عدالت کے پاس اسلامی قانون کے تحت پیدا ہونے والی سزاؤں (حدود) پر اپیل کا دائرہ اختیار بھی ہے عدالت کے فیصلے اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ پر بھی پابند ہیں عدالت اپنا عملہ خود مقرر کرتی ہے اور طریقہ کار کے اپنے اصول بناتی ہے عدالت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے جن کا تقرر صدر پاکستان نے سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹسوں کی عدالتی کمیٹی کے مشورے پر کیا ہے کمیٹی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ججوں میں سے یا ہائی کورٹ کے ججوں کی اہلیت رکھنے والے افراد میں سے انتخاب کرتی ہے آٹھ ججوں میں سے تین کا اسلامی اسکالر/علماء ہونا ضروری ہے جو اسلامی قانون میں مہارت رکھتے ہوں ججوں کی مدت تین سال ہوتی ہے یہ ہے ہمارا عدالتی نظام جبکہ جانوروں اور پرندوں کا بھی اپنا ایک الگ ہی نظام انصاف ہے جہاں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا حیوانات پر جدید تحقیق کے مطابق کووں کے ہاں باقاعدہ عدالتی نظام ہے اور یہ عدالت کسی کو فرد یا جماعت پر ظلم کرنے نہیں دیتی کووں کے نظام عدل میں ہر جرم کی مخصوص سزا ہے جیسے کووے کے بچے(چوزے) سے کھانا چھیننے کی سزا یہ ہے کہ کووں کا ایک گروپ اکھٹا ہو کر کھانا چھیننے والے کے پَر نوچتے ہیں یہاں تک کہ وہ بھی بچے کی طرح اڑ نہیں پاتا گویا ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کا اسلامی قانون نافذ ہے!! اسی طرح گھونسلا خراب کرنے اس کو گرانے یا اس پر قبضہ کرنے کی سزا یہ ہے کہ کووں کی ایک جماعت مجرم کو وہ گھونسلا دوبارہ بنانے پر مجبور کرتی ہے!! کسی دوسرے کوے کی جوڑی (بیوی) کووے کے ساتھ غلط کاری یا ریپ کی سزا یہ ہے کہ کووں کی ایک جماعت مجرم کو چونج مار مار کر قتل کردیتی ہے!!ماہرین کے مطابق کووں کی عدالت لہلہاتے کھیتوں اور کھلے میدانوں میں لگتی ہے یعنی کسی بند کمرے میں نہیں مقررہ وقت پر کووے اکھٹے ہو جاتے ہیں اور جج بیٹھ جاتے ہیں ملزم کووے کو لایا جاتا ہے عدالتی کاروائی شروع ہوتی ہے تو ملزم سر جھکائے پر پھیلائے انتہائی سیکورٹی میں عدالت کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اپنے جرم کے اعتراف میں کائیں کائیں بند کر دیتا ہے یعنی خاموش رہتا ہے جب عدالت کسی کوے کو سزائے موت سناتی ہے تو سیکورٹی پر مامور کوے اس مجرم پر حملہ آور ہوتے ہیں اور چونج مار مار کر اس کو قتل کر دیتے ہیں اس کے بعد ایک کوا اس کو اپنے چونج سے اٹھالیتا ہے اور اس کو دفنانے کے لیے لے جاتے ہیں پھر اس کے جسم کے برا بر قبر کھود کر اس کو دفناتے ہیں یوں کووں کو اللہ کا عدل معلوم ہے اور انہوں نے اس کو نافذ کیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ انکے گھونسلے بھی محفوظ ہیں اور بچے بھی مگر افسوس انسان پر جو اللہ کے قانون کی بجائے خودساختہ بنائے ہوئے قوانین پر بھی عمل نہیں کرتا اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ ”زمانے کی قسم انسان نقصان میں ہے”۔(تحریر۔روہیل اکبر03004821200)