شدت کی گرمائش اور ہمارے گلیشئرز (قسط دوم)
ڈاکٹر ذاکرحسین ذاکرؔ
کل میں اپنے کالم کا پہلا قسط لکھا چکا تھا، کہ کل ہی اٹھائیس اپریل کو بی بی سی اردو پراسی موضوع پر بینظیر شاہ کا آرٹیکل شائع ہوا ہے۔ اس آرٹیکل کا عنوان ہے ’’پاکستان میں شدید گرم موسم سے فصلیں متاثر، بارشوں کی کمی سے آبی ذخائر بھی کم ترین سطح پر‘‘۔ اس آرٹیکل میں رپورٹ ہوا ہے کہ غیر معمولی گرمی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں گندم کی پیداوار گذشتہ سال 50 من فی ایکڑ سےانتہائی کم ہو کر اس سال صرف 30 من فی ایکڑ رہ گئی۔ رپورٹ میں آگے لکھتی ہے کہ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس سال مارچ کا مہینہ 61 سالوں میں سب سے زیادہ گرم رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے ایک ماہانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ’مارچ 2022 کا مہینہ 1961 سے لے کر اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا۔‘ یہی نہیں بلکہ محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ ماہ ملک میں بارشیں بھی معمول سے 62 فیصد کم تھیں۔
محکمہ موسمیات پاکستان نے ملک بھر میں کپاس اور گندم کے کاشتکاروں کو اپریل کے مہینے کے لیے بھی الرٹ جاری کر رکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت بتدریج بڑھیں گے۔ اس ماہ میں موسم خشک رہنے اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے لہٰذا گندم کی فصل معمول سے جلد پک کر تیار ہونے کی توقع ہے۔‘
یہ تو تھا پنجاب کی صورت حال، اب گلگت بلتستان کی بات کریں تو کل یعنی اٹھائیس اپریل کو ہی سکردو رگیایول سے چند احباب جو گلاف ٹو پروجیکٹ کے ایک ذیلی منصوبے میں بلتستان یونیورسٹی کے شراکت دار ہیں میرے پاس آئے تھے ان کا کہنا تھا کہ رگیا یول میں ابھی تک موسم بہار کی پہلی آب پاشی نہیں ہو پائی ہے، گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے فصلیں سوکھ رہے ہیں۔ اگر مزید دس دنوں تک پانی نہ ملے توبڑے پیمانے پر فصلوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات پاکستان مہر صاحبزادہ خان کے مطابق پاکستان کے کئی شہروں میں مارچ میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کے تاریخی ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ پاکستان کے کئی شہروں میں کئی دھائیوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ بی بی سی والی رپورٹ کے مطابق چلاس کے شمالی علاقے میں درجہ حرارت 33.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جس نے 1974 کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس کے علاوہ کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب 2010 کے بعد پہلی بار درجہ حرارت 42.5 ڈگری تک پہنچ گیا۔ حد یہ کہ بقول ڈائریکٹر جنرل ’درحقیقت اس سال تو موسم بہار آیا ہی نہیں‘۔
اسی طرح بی بی سی پرہی ایک اور مضمون شدید گرمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صحت کے مسائل پرشائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’پاکستان میں ہیٹ ویو کی پیشگوئی: شدید گرمی کی لہر ہمارے جسم کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟‘‘
ہمارے ہاں اس طرح کی سائنسی، انسانی اور اجتماعی مسائل پر گفتگو، لکھنے پڑھنے اورسوچنے کا رجحان کم ہے، جبکہ سیاسی اور مذہبی معاملات میں دلچسپی کچھ ضرورت سے زیادہ ہیں اور ہر کوئی جنت جہنم تقسیم کرنے، یا کسی کو اقتدار میں لانے یا ایوان اقتدار سے نکالنے کے چکروں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تقریباً ستر سے اسی فیصد مواد انہیں دورجحانات پر مبنی ہیں۔ کسی ماحولیاتی مسائل، آبی وسائل، صاف توانائی کے ذرائع یا حیاتیاتی تنوع جیسے موضوعات پر ٹرینڈ بنانے کا شاید کسی نے سوچا ہی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم عقل کی بجائے جذبات سے زیادہ سوچتی ہے اور مذکورہ دوعنوانات جذباتیت سے زیادہ منسلک ہیں۔ اسی طرح ہمسایہ اقوام سے محبت اور نفرت میں بھی عقل سے زیادہ دل سے سوچتے ہیں۔معذرت کے ساتھ لگتا ہے ہماری فکر کا مرکز سر کی بجائے گردن سے نیچے نیچے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ شاید ہماری تربیت ہی اس طرح سے کی جا رہی ہے کہ ہم دلائل کی بجائے جذباتی اور الزاماتی بلیک میلنگ کا سہارا لے کراپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُلو نے چونکہ سیدھا ہونا نہیں، اس لیے ہم خود ٹیڑھے ہو جاتے ہیں تاکہ اُلو کے سیدھ میں آجائے۔
دیکھا آپ نے،عمومی تربیت جذباتی میڈیا میں رہ رہ کر میری اپنی تحریرعقلی اور سائنسی کی بجائے جذباتی ہوتی جا رہی ہے۔ ہاں جذبات انسانی زندگی میں کھانے میں نمک اور مرچ کی طرح کام کرتی ہے، اگر یہ نہ ہوں تو زندگی پھیکی ہو جاتی ہے۔ لیکن نمک کو آٹے میں نمک کے برابر ہی ہونا چاہیے، اس سے زیادہ ہوگیا تو نمک ہی نمک محسوس ہوگا چاہے وہ حلال ہو یا حرام۔ پیٹ بھرنے اور غذائی ضروریات کے لیے آٹے کی زیادہ ضرورت ہے جسے گندم کی صورت میں اگانا پڑتا ہے، اس کے لیے محنت درکار ہے۔ نمک کے بغیر بھی زندگی مزے سے گزاری جا سکتی ہے۔ اور آپ نے اوپر پڑھا کہ آٹے کیلئے گندم کی پیدوارمیں اس بارریکارڈ کمی ہورہی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پانچواں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک ہے۔ گذشتہ سال اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا۔
اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔
پاکستان سال در سال گرم ہوتا جا رہا ہے، جس سے فصلیں اور یہاں کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ 2018 میں پاکستان نے اپریل کے گرم ترین مہینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جب اس کے شہر نواب شاہ میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔‘‘
پاکستان کی صورت حال سے متعلق اس رپورٹ میں کراچی میں شہری منصوبہ بندی کی پروفیسر نوشین انور اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق کا تذکرہ ہے جس کے مطابق ’’کراچی دن کے وقت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اور رات میں 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہوا ہے جیسا کہ آئی پی سی سی کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے۔ پرفیسر نوشین انور نے انکشاف کیا کہ آج تک گرمی کی لہر یا دائمی گرمی سے نمٹنے کے لیے وفاقی یا صوبائی سطح پر کوئی ایکشن پلان موجود نہیں ہے۔‘‘
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے باقی ماندہ موسم گرما کے لیے شدید اور غیر متوقع موسم کی پیش گوئی کی ہے جس میں اپریل میں معمول سے کم بارشیں اور جون میں ضرورت سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ اب ہم آتے ہیں گلگت بلتستان کی طرف۔
گلگت بلتستان جو قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشئر والی سر زمین ہے، اسی وجہ سے یہ خطہ تیسرے قطب The Third Poleکے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ خطہ اس طرح کی غیر معمولی موسمیاتی تبدیلی سے سب زیادہ اور انتہائی تشویشناک حد تک متاثر ہو سکتے ہیں۔
گلیشئرز نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے پیمانے ہیں بلکہ ان تبدیلیوں کوکافی حد تک قابو میں رکھنے کے قدرتی وسائل اور ذرائع بھی ہیں۔ تاہم اگر اس طرح کی موسمیاتی تبدیلیاں ایک حد سے زیادہ ہو تو پھر ان کو قابو کرنا گلیشئرز کی بس سے باہر ہو سکتا ہے، ایسے میں گلیشئرز اِ ن تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں میں خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ بلتستان کی مقامی کہانیوں اور داستانوں کے مطابق گلیشئرز کو جانداروں کی طرح بڑھتے گھٹتے، حرکت کرتے، اور تذکیر و تانیث جسی صفات کے ساتھ انسانی سرگرمیوں سے براہ راست اور بالواسطہ اثر لینے کی روایات موجود ہیں۔ ہمارے اپنے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے، کہ گلیشئرزانسانی سرگرمیوں سے براہ راست اثر لیتی ہیں اور ردّ ِعمل دیتی ہیں۔ اگر آپ ان کے آس پاس حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں، ان سے پیا رکرتے ہیں تو یہ بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ اس طرح اگر ان پرضرورت سے زیادہ عرصہ تک انسانی رہائش بنائے رکھیں، ان پر کوڑا کرکٹ یا انسانی فضلہ ڈال دیں، یا ان پر بارود کاذخیرہ کرلیں، یا ان پرباردود کی بارش کر دیں تو لازماً یہ اپنا ردّ ِعمل دیتی ہے اور پھرحادثات پیش آتے ہیں جس طرح 2012میں اپریل کے ہی مہینے میں سیاچن غیاری (گیاری) میں گلیشئرز ٹوٹنے سے برفانی تودے میں دب کر تاریخ میں اس نوعیت کا سب بڑا سانحہ ہوا تھا جس میں ایک سو سے زائد انسانی جانوں کا نقصان ہوا ۔
بحیثیت ڈائریکٹر اکیڈمکس اور ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ بلتستان یونیورسٹی، راقم نے یونیورسٹی میں مجوزہ ’’شعبہ آبی وسائل اور گلیشالوجی‘‘ کی ضرورت اور امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کئی مقا مات پر گلیشئرز کا دورہ کیا اور بزرگ افراد سے گلیشئرز سے متعلق مقامی تاثرات، روایات اور کہانیوں کو سنا ، تاکہ ایک طرح کی ایتھنو گرافک ڈیٹا جمع ہو۔ بطور فوکل پرسن گلاف ٹو پروجیکٹ کے بھی کئی سروے کیے جن سے میری معلومات اور فہم میں کافی اضافہ ہوا۔ ان مطالعاتی دوروں میں ایک دورہ سکردو کے قریب چُندا گاؤں کا تھا جہاں سے ہمیں گلیشئرز کی پگھلاؤ سے متعلق نہایت اہم شواہد ملے۔
سکردو شھر کی مضافات میں وادی چُندا سیاحتی اعتبار سے ایک نہایت خوبصورت بلند گاؤں ہے جہاں سے سکردو ائیر پورٹ بالکل نیچے سامنے نظر آتا ہے۔ چُندا میں کئی گلیشئرز موجود ہیں ۔ جن میں دوگانگ سینگے، ہرتا کھانگ اور پھونگ کھانگ مشہور گلیشئرز ہیں ۔ مقامی بزرگوں کے مطابق حوطو بروق سے متصل ایک گانگ سینگے جو سکردو سے نظر آتا ہے، 1970کی دھائی میں کافی نیچے ہوتا تھا اور اس کا نچلا سرا بونگ بونگ میں تھا، جو گزشتہ چار سے پانچ دھائیوں میں تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر سکڑ کر پیچھے ہٹ گیا ہے۔ چُندا کے سرگرم سماجی کارکن اخوند حسن صاحب ، سیاسی رہنما سعید صاحب اور دیگر عمائدین کو اس صورت حال پر کافی تشویش ہے۔ اخوند حسن کے مطابق جب سے سکردو ائیر پورٹ فعال ہوا ہے اور با قاعدہ پروازیں جاری ہیں ، اس گلیشئر کی پگھلاؤ میں خاطر خواہ اضافہ محسوس ہوا ہے۔ یہ ایک مقامی با شعور فرد کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ لازمی بات ہے، جب ائیر ٹریفک ان گلیشئرز کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان میں حرارت کی ویوز کے علاوہ ارتعاش بھی پیدا ہوتا ہے، اور باقاعدہ طویل عرصہ تک یہ صورت حال جاری رہے، تو گلیشئرز کے نسبتاً کمزور حصے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور پگھل جاتے ہیں۔ اس طرف شاید کسی کی توجہ نہیں گئی۔ اخوند حسن کہتے ہیں کہ اگر یہ صورت حال جاری رہی اور ہم نے کچھ نہ کیا تو آنے والی چند دھائیوں میں یہ گلیشئرز خطرناک حد تک سکڑ سکتا ہے، جس سے آبی وسائل کی شدید کمی اور یوں خشک سالی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اسی صورت حال کےپیش نظرموضع چُندا کی کمیونٹی نے گلیشئر گرافٹنگ کے لیے بلتستان یونیورسٹی سے رابطہ کیا اور درخواست دی۔ معاملے کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر یونیورسٹی نے گلاف ٹو پروجیکٹ کے تحت گانگ سینگے کو سہارا دینے اور چُندا گاؤں اور اس کے ملحقہ علاقوں کے لیے پائیدار آبی وسائل پیدا کرنے کی غرض سے بونگ بونگ میں، جو پانچ دھائی قبل گانگ سینگے کا آخری سِرا یا دُم ہوا کرتا تھا، گلیشئر اگانے کا فیصلہ کیا ۔ گزشتہ سردیوں میں تمام تیاریوں کے بعد سال کے مختصر ترین دن 21دسمبر2021 کو مقامی کمیونٹی کے ساتھ مقامی ٹیکنالوجی کے مطابق تقریباً تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک نیا گلیشئر اُگانے کا عمل مکمل کیا ۔
ابھی تک بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عموماً تدارکی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔یعنی درجہ حرات بڑھانے اور فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والے عوامل کو کم کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں کی اثرات پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ گلیشئر اُگانے کی قدیم مقامی ٹیکنالوجی وہ واحد کم خرچ طریقہ کار ہے جو کافی حد تک مائکرو سطح پر مقامی ماحولیاتی عوامل پر مثبت اثرات ڈال سکتی ہیں۔ جس پر اگر بڑے پیمانے پر عمل کیا جائے تو یہ نہ صرف علاقائی بلکہ گلوبل سطح پر حِدت عالم (گلوبل وارمنگ) کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ جس کے ساتھ گلیشئرز کی پھیلاؤ ،حیاتیاتی تنوع اور پائیدار آبای وسائل میں اضافے کا بھی باعث بنے گا۔
گلیشئرز کی نشو نما کے اس خیال اور ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ماحولیاتی بہتری اور ترقیاتی منصوبہ سازی کے اداروں کی توجہ اس ضمن میں پائیدار ترقی کے اہداف SDGsکی حصول میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
گلیشئرز کی نشو نما کیسے کی جاتی ہے، انشا ٔ اللہ اگلی قسط میں پڑھیے گا۔
(جاری ہے۔۔۔)
شدت کی گرمائش اور ہمارے گلیشئرز (قسط دوم)
Leave a comment