حکومت وقت کو پی ٹی ئی کارکنوں کی گرفتاریوں سے روک دیا گیا، تمام گرفتار وکلاء کو فوری رہا کرنے کیا جائے، آئی جی اسلام آباد کو تین گھنٹے کے اندر جلسہ گاہ کے وینیو کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی بھی ہدایت
تحریک انصاف کے ذمہ داران یقینی بنائیں کہ سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے اور سری نگر ہائی وے پر ٹریفک بہاؤ میں خلل نہ ڈلے، سماعت آج صبح ساڑھے نو بجے تک کے لئے ملتوی
عدالت عظمیٰ کا حکومتی اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو رات دس بجے چیف کمشنر آفس میں مذاکرات کرنے جبکہ پی ٹی آئی کمیٹی کو ذمہ داران سے ملنے جانے کیلئے تحفظ فراہم کرنے کا بھی حکم
اسلام آباد(نامہ نگار)سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران راستوں کی بندش اور گرفتاریوں کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی درخواست کی سماعت کے موقع پر حکومت وقت کو پی ٹی ئی کارکنوں کی گرفتاریوں سے روکتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کو جی نائن اور ایچ نائن پر جلسہ گاہ فراہم کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا کہ تمام گرفتار وکلاء کو فوری رہا کرنے کیا جائے،پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ داران یقینی بنائیں کہ سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے اور سری نگر ہائی وے پر ٹریفک بہاؤ میں خلل نہ ڈلے۔عدالت عظمیٰ نے حکومتی اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو رات دس بجے چیف کمشنر آفس میں مذاکرات کرنے جبکہ پی ٹی آئی کمیٹی کو ذمہ داران سے ملنے جانے کیلئے تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں آئی جی اسلام آباد کو تین گھنٹے کے اندر جلسہ گاہ کے وینیو کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملہ کی سماعت جمعرات 26 مئی صبح ساڑھے نو بجے تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔کیس کی سماعت جسٹس اعجازالحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری داخلہ، اسلام آباد کے چیف کمشنر،آئی جی، ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل کو 12 بجے تک طلب کرتے ہو? چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کرتے ہو? اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء کیس میں جاری احکامات بھی طلب کئے۔دوران سماعت درخوستگزار و صدر اسلام آباد ہائیکورٹ شعیب شاہین نے موقف اپنایا کہ کے پی ہے کے علاوہ سارے ملک کی شاہراؤں کو بند کردیا گیا ہے،وکلا سمیت عام لوگوں کو حراساں کیا جا رہا ہے،راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھسا جا رہا ہے، پولیس وکلاء کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے پولیس نے چھاپہ مارامظاہرین اور حکومت دونوں ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں،ابھی تو احتجاج شروع ہی نہیں ہوا تو مسلح افراد کہاں سے آ گئے،مولانا فضل الرحمان دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرناْدے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں،اب بھی مظاہرین کیلئے جگہ مختص کی جا سکتی ہے،احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں،حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں،بار صرف شہریوں کے حقوق کیلئے آئی ہے۔ جس پرجسٹس اعجازلااحسن نے ریمارکس دیئے کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے،معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے،کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں، بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے،قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں،ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی،میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں،انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا، معلومات لینے کا وقت دیں۔اٹارنی جنرل کو بتایا کہ سکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی،معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، معیشت کے حوالے ریمارکس میڈیا کو چلانے سے روکا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا،سکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹفکیشن جاری ہوئے ہیں۔جس پراٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے،بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں،راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، جسٹس اعجازلاحسن نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں،کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے میں کیا مزا آتا ہے؟ ڈاکٹرز کیلئے ہسپتال جانا مشکل ہو چکا ہے، کاروبار نہیں چلے گا تو لوگوں کے بچے کھائیں گے کہاں سے؟ حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارنا خلاف قانون ہے،جسٹس منیب اختر نے اس دوران استفسار کیا کہ کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سرینگر ہائی وے پر ہی ہے؟جسٹس مظاہر نقوی نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کیا آپ اسکی ذمہ داری لیتے ہیں؟ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟اس دوران سیکرٹری داخلہ نے موقف اپنایا کہ لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے،وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا،حساس اداروں کی رپورٹس پر ہی کارروائی ہو رہی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔ جس پراٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر احتجاج اور باہمی احترام کا میثاق کرنا ہوگا۔ جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی عہدیداران کے بیانات دیکھیں،بطور حکمران آپکا کام ہے کہ پہل کریں۔صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے موقف اپنایا کہ کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کیلئے پورا ملک بند کر دیا گیا۔اس دوران جسٹس اعجازلاحسن نے چیف کمشنر اسلام کو پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کے لئے مناسب جگہ فراہم کرنے اور اس کیلئے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لانگ مارچ کی جگہ تک رسائی کے لیے ٹریفک پلان ترتیب دیا جائے،پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے۔احتجاج پر امن ہوگا،املاک کو نقصان نہ پہنچے، نہ تشدد ہو اور نہ ہی ٹریفک بلاک ہو۔عدالت عظمی کی طرف سے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو قیادت سے ہدایت لینے کے لیے عدالت کو آگاہ کرنے پر بعد ازاں وقفہ پی ٹی آئی کے وکیل تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے وقفے کے بعد عدالت سے فوری طور پر شیلنگ رکوانے کی استدعا کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تحریک انصاف کو سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت دی جا?،جہاں جے یو آئی نے دو مرتبہ دھرنا دیا وہاں ہی احتجاج کرنا چاہتے ہیں،ہم پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کرواتے ہیں، اس موقع پر تحریک انصاف نے دھرنے کا دورانیہ عدالت کو بتانے سے معذرت کر. تے ہو? موقف اپنایا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں، ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں گا،عمران خان نے انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے،کمیٹی میں میرے علاوہ فیصل چوہدری، عامر کیانی علی اعوان شامل ہیں،انہوں نے اس موقع پر عدالت سے گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دینے کی بھی درخواست کی،سپریم کورٹ نے اس موقع پر تحریک انصاف کے نقاط پر اٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے ایک گھنٹے کے اندر ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہو? کہا کہ تحریک انصاف نے پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا، انہوں نے اس موقع پر پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہو? کہا کہ کیا پولیس کا کام گاڑیاں توڑنا اور آگ لگانا ہے؟لاہور کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے،پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بدقسمتی ہے،احتجاج روکنے کیلئے چھاپے اور گرفتاریاں غیر قانونی عمل ہے،پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دینگے،شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کرینگے، ایم پی او کے حوالے سے بھی حکمنامہ جاری کرینگے،حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط اور اعتماد کا فقدان ہے،انشاء اللہ عدم توازن ختم ہوجائے گا، تحریک انصاف کے مطالبات واضح ہیں کہ جے یو آئی نے جہاں دھرنا دیا وہاں اجازت دی جائے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس موقع پر بتایا کہ لاہور میں ایک گھر سے اسلحہ برآمد ہوا، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے، صبح سے کیا اسلحے والی کہانی سنائی جا رہی ہے،اسلحہ کہانی کو اب بند کر دیں،ایم پی او کے تحت ہونے والی ایف آئی آرز نہیں چلیں گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کچھ دیر میں مذاکرات کیلئے وزراء کی ٹیم نامزد کرینگے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہو۔
سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کے احتجاج کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم
Leave a comment