رمضان اور غریبوں کی امداد
تحریر: امیرجان حقانی
اسسٹنٹ پروفیسر: پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت
ریسرچ اسکالر: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
خاص برائے: رمضان ٹرانسمیشن ریڈیو پاکستان گلگت
رمضان المبارک اللہ کی طرف سے ایک بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ہے۔اس مہینہ میں دیگر عبادات کی طرح راہ خدا میں مال خرچ کرنا اور غریبوں ، یتیمیوں ، لاچاروں اور بیماروں وغیرہ پر خرچ کرنا اور ان کی امداد کرنا بہت ہی زیادہ باعث ثواب و اجر ہے۔
اللہ رب العزت کی رضا اور انسانیت کی بقا کے لیے خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے۔
”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ (البقرہ۔261 )۔
جس طرح قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ کی رضا میں مال خرچ کرنے کے احکام و فضائل موجود ہیں اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی موجود ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص ایک کھجور کے برابر پاک کمائی سے خرچ کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کو داہنے ہاتھ میں لیتا ہے پھر اس کو بڑھاتا ہے جیسا کہ تم سے کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے ”۔ (بخاری و مسلم)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اپنی حیات میں ایک درہم خرچ کرنا مرتے وقت سو درہم خیرات کرنے سے افضل ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور اس کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے تو کن لوگوں پر خرچ کیا جائے۔وہ کونسے لوگ ہیں جو اس مال یعنی زکواۃ و صدقات اور خیرات کے حق دار ہیں؟۔اس کی رہنمائی بھی قرآن کریم نے ہی کی ہے۔
ترجمہ:بے شک صدقات تو فقرا، مساکین اور عاملین (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے) ، قلوب کی تالیف ،گردنیں چھڑانے ، قرض داروں کے قرض ادا کرنے اور اللہ کی راہ کے مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں۔اور اللہ علم و حکمت والاہے۔(التوبہ۔60)
اللہ رب العزت نے غریب رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں پر خرچ کرنے والوں کو ”البر” یعنی بہت بڑی بھلائی اور نیکی کے کام سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ۔”(البقرۃ: ۱۷۷)
’’اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور (بے خرچ) مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں ‘‘۔
ایک اور جگہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً۔(الدھر:۸)
’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ‘‘
یاد رہے کہ غریبوں ، یتیموں اور ناداروں کی خدمت کرنے اور بالخصوص رمضان المبارک میں ان کا خیال رکھنے سے
اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
دو جہانوں کی بھلائی نصیب ہوتی ہے۔
صدقہ سے قبر کے منازل آسان ہوتے ہیں۔
اللہ کا غضب ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
صدقہ سے مشکلات دور ہوجاتی ہیں۔
صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے۔
صدقہ بری اور سخت موت سے بچاتا ہے۔
صدقہ دوا بھی ہے شفا بھی۔
ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صدقات و خیرات کے مستحق لوگ کون ہیں اور ان کے دینے کے کتنے بڑے فوائد ہیں۔وہ لوگ گداگری اور بھیک مانگنے جیسے کاموں سے بچ جائیں گے ۔اسلام میں ہاتھ پھیلانا منع ہے۔ جب اہل خیر اپنی صدقات اور زکواۃ سے غریبوں اور ناداروں کی مدد کریں گے تو ہاتھ پھیلانے والا ناپسندیدہ عمل خود بخود ختم ہوجائے گا۔
یہ تحریر ریڈیوپاکستان کی رمضان ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے۔