گوٹھہ شو ہہ، لاشوں کا مکان (زیر زمین قبور)
تحریر:جاوید آحمد
پرانے زمانے میں زمین دوز مکان بنا کر، ان میں لاشیں رکھی جاتی تھیں، جن کے اثار آج بھی یاسین میں پایئے جاتے ہیں اور شاید وہ دَور قبل از اسلام کا دَور ہوگا، ایسے قبرستان کو ہم اجتماعی قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے لفظوں میں لاشوں کا مکان بھی کہہ سکتے ہیں،ان مکانوں میں سے ایک مکان سندی گاوں کے نزدیک ایک پہاڑی پر موجود ہے۔یہ مکان قوم شھمونے کے آبائی قبرستان کے ساتھ ملحق ہے،اس زمین دوز گھر میں اترنے کے لئے لکڑی کا بنا ہو ایک زینہ یا سیڑھی کا استعمال کیا جاتا تھا جو اس مکان کے درمیان میں ایک بڑے سے روشن دان کے ساتھ لگا ہو ا تھا اور سیڑھی کے ذریعے اندرداخل ہو کر اس مکان میں لاشیں رکھتے ہوں گے اور چند سال پہلے تک یہ سیڑھی موجود تھی جس کی مدد سے لوگ اس مکان میں اتر کر لاشوں کو دیکھتے تھے لیکن کسی مہربان نے اس لکڑی کی سیڑھی کو بھی نہیں بخشا اور دسمبر کی کسی سرد رات میں بطور ایندھن کام میں لایا ہوگا اور اب صرف حسرت بھری نگاہوں سے روشندان سے اندرجھانک کر گذارا کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تیس چالیس سال پہلے اس مکان میں بہت سی لاشیں تھیں لیکن ارتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ ان لاشوں کی ہڈیا ں بھی آہستہ آہستہ کم ہو نے لگی ہیں قیاس ہے کہ جدید دور کے میڈیکل کے طالب علموں نے ان ہڈیوں کو اپنے کالجوں کی لیبارٹری کی زینت بنایا اور اس تاریخی جگہ کو چند ایک بے کار ہڈیوں کے ساتھ چھوڑدیا ہے ”وللہ اعالم بالصواب“
دوسرا اجتماعی قبر ستان یا لاشوں کا مکان سنٹر یاسین میں آبادی سے کچھ فاصلے پر پہاڑی ڈھلوان میں ہے لیکن اس مکان میں داخل ہو نے کے لئے ایک دروازہ ہے، اس تاریخی مکان کے بارے میں بات کرتے ہوے محمد ایوب نامی ایک نوجو ان نے بتایاجو کہ اس مقام سے نزدیک ترین اس کا گھر ہے، اس کا کہنا تھا کہ جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو پہاڑی ڈھلوان سے مٹی کے سرکنے کی وجہ سے اس مکان کا دروازہ نظر آنے لگا تو اس بارے میں لوگوں کی مختلف باتوں کو سن سن کر ہم چند ایک نوجوانوں کو تجسس ہوا اور ہم نے آپس میں بات کر کے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت کھود کر اس دروازے کو آزاد کریں گے اور اندر داخل ہو کر جو بھی قیمتی چیز ملے نکال کرتصرف میں لائے گے لیکن رات کو تو اندھیرا ہو گا کیسے کھدائی کریں گے اورکھدائی کربھی لی تو اندر ہمیں کیسے کچھ نظر آئے گا، اس لئے ہم نے بجلی کی بہت ساری تار جمع کیا اور ان کو جوڑ کر اس مکان تک پہنچایا اور ایک بلب لگا کر روشنی کا بندوبست کیا اور پھر رات بھر کی کھدائی کے بعد دروازے کو کھولنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر جب بلب کی روشنی میں اندر دیکھا تو بہت سے انسانی لاشیں پڑی تھیں اور بڑے بڑے ڈھانچے تھے، یہ لاشیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ میں نے آج تک اتنے بڑے قد کا انسان نہیں دیکھا ہے، اس جوان کا کہنا ہے کہ وہ لاشیں بالکل سالم تھے ان کی جسم پر ٹاٹ یا بوری نما قسم کا کپڑا تھا اور ایسے لگ رہے تھے جیسا کہ ان کوحنود کیا گیا ہو، ہم اس لالچ میں تھے کہ شاید کچھ سونا وغیرہ قیمتی چیز مل جائے اور اس لئے ہم نے گنتی بیلچہ اور لکڑی کے ڈنڈوں کی مدد سے ان لاشوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ مکان کافی
بڑا تھا جو کہ جنیپر کی لکڑی کے تختوں کا چھت تھی اور یاسین کے مقامی ایک چھوٹے گھر کے سائز کا تھا چونکہ یاسین کے دیسی مکان کافی بڑا رقبے پر بنایا جاتا ہے اس لئے اس نے چھوٹے گھر یا مکان کی مثال دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اطراف میں دیواروں کے ساتھ بلکشھ تھے یعنی سامان رکھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی اور ان میں چھوٹی چھوٹی کئی لاش رکھی گئی تھی ہم اپنے مقصد میں ناکامی پر مایوس وہاں سے نکل آئے، بعد میں گاؤں کے بچو ں نے پتھر مار مار کران لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور وقت کے ساتھ ساتھ پہاڑ سے مٹی اور پتھر گرگر کر اس مکان کو پھر سے ڈھانپ دیا ہے۔ اس طرح یہ تاریخی مقام بھی گمنام ہو گیا اور اس کی حفاظت کسی نے نہیں کی، شاید گلگت بلتستان میں آثار قدیمہ کی حفاظت کا کوئی محکمہ نہیں جو ان تاریخی مقامات کی حفاظت کرے اور قومی ورثے کو تباہی سے بچائیے، حکومت اور خاص کر یاسین کے منتخب ممبران کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اگر یہ اور اسی طرح کے دوسرے تاریخی مقامات کی حفاظت کی جائے تو یہ ایک بہترین ٹورسٹ سپاٹ بن سکتا ہے اور سیاحت کو فروغ دینے کا باعث بن جائے گا۔ میجر ڈاکٹر فیض امان جو کہ خود بھی ایک محقق اور لکھاری ہے کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں بھی ان کے آبائی قبرستان سے ملحق ایک مکان کے کھنڈرات میں بھی ایسی لاشیں پائی گئی ہیں اور اسی طرح دو بڑے بڑے غار غنیار کے نالے میں جو کہ غوجلتی کے نزدیک بھی پائے جاتے ہیں بلکہ جو فوٹو موصول ہو ے ہیں ان میں بہت سے غار دکھائی دے رہے ہیں جن میں انسانی ڈھانچوں کی ہڈیاں اور کویلے اور لکڑی وغیر ہ ہیں یہ امر تحقیق کا متقاضی ہے کہ اتنی اونچائی پر انسانی لاشوں اور رہائش یا آگ جلانے کے اثرات کیسے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ ہم لوگ خود سوئے ہوے ہیں یا یہ کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ایسے تاریخی مقامات پر تحقیق نہیں کر سکتے مگر افسوس ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی اور کسی ادارے کی جانب سے بھی بالکل خاموشی ہے ایک سوالیہ نشان ہے؟
اس بارے میں جناب میجر ڈاکٹر فیض امان (ریٹائرڈ) یوں رقم طراز ہیں کہ زیر زمین کمروں میں تدفین یقینا اسلام سے قبل کی ہے۔ اس پر محققین نے رائے دی ہے ایک نظریہ یوں ہیکہ اس طرز طرز تدفین کو گندھارا تہذیب کا طریقہ تدفین کہا گیا ہے، گندھارا تہذیب ۰۰۵۱ سال پرانی ہے اور اس کا مرکز چار سدہ اور ٹکسیلا تھے گندھارا تدفین کا رواج سوات پشاور، چترال اور انڈس کوہستان سے آگے گلگت اور مضافات تک رواج پا چکا تھا، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تدفین کایہ عصراور اریاء گروہ کی ہجرت کے عصر ایک ہی ہے۔ تو یہ اریاء گروہ نے متعارف کرایا، یا مقامی تھا، اسے اریاء گروہ نے جاری رکھا۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ طریقہ تاجکستان میں بھی مروج تھا۔
گلگت اور مضافات پر بات کریں توشین لسانی گروہ کی اکثریتی ابادی کے علاقوں میں زیر زمین قبور کے اثار کا ذکر ہمیں نہیں ملتا۔ جناب پروفیسر عثمان صاحب کے حوالے سے شین اپنے مردوں کو جلاتے تھیاور جلانے والی جگہ جینس کہلاتی تھی، اس لئے شین لسان کا ایک بد دعائیہ کلمہ (جینس اٹے گا) ہے۔ یقینا ویدی تہذیب سے متاثر ہے۔ اس طرح بلتستان میں بھی زیر زمین قبور کی مثالیں ہمیں نہیں ملتیں، جبکہ پونیال، یاسیناور چترال میں ان کی نشان دہی کی گئی ہے۔چترال کے گول دور اور چیو ڈوک کے زیر زمین قبور رئیس دَور کی ہیں،یاسین میں جو نشان دہی کی گئی ہے وہ گلگت کے ریئسوں کے عہد کا ہے۔ غالباََ صاحب قران حکمران گذرا ہے۔ ان کی قبر یاسین میں ہے، اسی طرح بوبر پونیال کے زیر زمین قبور جن کو ڈوم را کہا جاتا ہے قدیم قوم آبادیئے سے منسوب ہے۔
گوٹھہ شو ہہ، لاشوں کا مکان (زیر زمین قبور)
Leave a comment