کتاب: جمالِ فرش و فلک
مصنف: حیدر خان حیدر ؔ
تبصرہ: اقبال حسین اقبال ؔ
علم و ادب کے درخشاں ستارے،ارضِ شمال کے مایہ ناز شاعر،معروف ادیب،محقق،ماہرِ تعلیم استادِ معظم جناب حیدر خان حیدر ؔ لگ بھگ چار دہائیوں سے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہیں۔ان کی ادبی اور سماجی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔انھوں نے نونہالانِ قوم کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی خدمت کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔حال ہی میں ان کی پہلی شعری تصنیف ”جمال فرش و فلک” زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔گو کہ اس سے قبل بھی اُن کے قلم سے متعدد ادبی نسخے تخلیق پائے ہیں ‘مگر یہ اپنی نوعیت کی منفرد شعری گلدستہ ہے۔اس کلام میں اکثر نظمیں فطرت اور ماحول سے متعلق ہیں اور شاعر کی فطرت پرستی پورے مجموعہ کلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔انھیں فطرت سے والہانہ لگاؤ رہا ہے۔انہوں نے فطرت کا بغور مشاہدہ کیا اور اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔اس مجموعہِ کلام میں جہاں انسان اور ماحول کو موضوع بنایا گیا ہے’وہیں بچوں کی دعائیں اور حب الوطنی سے لبریز ترانے بھی شامل ہیں۔موضوعات کی کثرت اور قدرتی رعنائیوں کی بوقلمونی اس تصنیف کی پہچان ہے۔اس میں غنائیت کا بھر پور عکس جھلکتا ہے۔اس کا سرورق نہایت دلکش،خوب صورت و معنی خیز ہے۔کتاب کا دیدہ زیب اور خوش رنگ سرورق قاری کو پہلی ہی نظر میں متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کا مکمل ترجمان اور عکاس ہے۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔
بقائے زندگی کا انحصار ماحول پر ہے
”جمالِ فرش و فلک” کا مدار ماحول پر ہے
بنائی خالقِ ارض و سماء نے یہ دنیا
ہماری زیست کا دارومدار ماحول پر ہے
223 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سادگی،دیدہ زیبی اور نہایت سلیقے سے مرتب کی گئی ہے۔اس کی تدوین و تالیف بڑی اہتمام و انہماک سے کیا گیا ہے۔کتاب کے پیش لفظ پر مصنف کی عظمت پر نوید نگری ؔ کا لکھا گیا کلام ”معلمِ بے بدل” نمایاں ہے جو تصنیف کی دلکشی کا باعث ہے۔ساتھ ہی مصنف کا مختصر تعارف بھی شامل ہے’جو بلاشبہ قاری اور مصنف کے درمیان ربط قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔شاعری مجموعی طور پر سادہ،عمیق اور اثر انگیز ہے جو قاری کے معیار پر اترنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔استاد حیدر خان نے ثقیل اظہارِ بیان سے اجتناب کرتے ہوئے اشعار کو عام فہم بنانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے تاکہ اپنے قارئین کا دائرہ وسیع کر سکے۔مصنف کی سلاست بیانی الفاظ کی روانی اور خیالات کی فراوانی ان کے حُسنِ کلام کو نکھارتی ہے۔اس گلدستے سے آنے والی مہک مشام جاں کو معطر رکھتی ہے۔ان کے اشعار میں جمود نہیں بلکہ جدید اندازِ فکر نظر آتا ہے۔اشعار میں زبان کی سادگی کے ساتھ شائستگی جابجا نظر آتی ہے۔ان کی شاعری میں جہاں حمد،نعت معرفت و عشق حقیقی کے نشان ملتے ہیں وہیں تصنع سے پاک عارفانہ و صوفیانہ رنگ بھی نمایاں ہے۔سُوقیانہ و عامیانہ پن سے پاک اخلاقیات پر مبنی یہ مجموعہ کلام اعلیٰ شعری تخلیق ہے اور بلاشُبہ اُردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔اس شعری گُلدستے کے کُلی مطالعے سے یہ حقیقت ط?شت از بام ہونے لگتا ہے کہ یہ ادبی تخلیق نہ فقط شاعری بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔جس میں ہائی اسکول چھلت کی تاریخی پسِ منظر اور اس سے جُڑے اساتذہ کی خدمات کو نہایت کمالِ مہارت سے شعری داستان میں محفوظ کیا ہے۔علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مصنف علامہ اقبالؒ کی شاعری سے کافی حد متاثر نظر آتے ہیں۔علامہ اور مصنف کے نظریات،خیالات، اسلوب اور اندازِ فکر میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
یقیناً کتاب کی اشاعت ایک مشکل ترین امر ہے۔جمع و ترتیب سے لے کر اشاعت تک کے مراحل ممکنہ حد تک صبر آزما ثابت ہوتے ہیں۔یہ دنوں اور ہفتوں میں ہونے والا کام ہرگز نہیں۔مختلف خیالات و تصورات کو الفاظ کی لڑی میں پرو کر قاری کے سامنے پیش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تخلیق کار کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔اسی حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔
اِک نئے کام کی تخلیق کوئی کھیل نہیں
یہ سمجھ لیجیے مٹی کو بشر کرنا ہے
کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ادبی حلقوں میں خوب پزیرائی ملی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ادبی ذوقِ مطالعہ کے حامل افراد کے لیے یہ کتاب ایک بہترین انتخاب ثابت ہوئی ہے۔اسے ہر صاحبِ علم اور اہم کُتب خانوں میں ضرور ہونا چاہیے۔حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اس شعری گلدستے کی نظمیں قومی نصاب میں شامل کرے۔ان کے کلام کا ہر لفظ بڑی فضیلت اور اہمیت کا حامل ہے۔ہر مصرع مفصل تشریح کا طالب ہے۔مگر یہ مختصر مضمون ان کے تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔میں اس بڑی ادبی کاوش پر استاد محترم جناب حیدر خان حیدر کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔امید رکھتا ہوں کہ ان کا ادبی و تخلیقی سفر جاری رہے گا۔آئندہ بھی قلم قبیلے کا کمان انہی کے ہاتھ میں ہو گا۔علم و آگہی اور شعور کی شمعیں روشن کرنے کے لیے پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔شاعری کا گلزار انہی کے دم سے مہکتا رہے گا۔جس سے آئندہ نسلیں اکتساب علم کرتی رہیں گی۔میں اپنی تحریر استادِ محترم کے اسی شعر کے ساتھ سمیٹنا چاہوں گا۔
شاعری کرتے رہو تم حُسنِ فطرت پر حیدر ؔ
کرنے تشریح کلام مضمون نگار آنے کو ہے