اسلام آباد /مردان (ویب ڈیسک)سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کااعلان نہیں ہوتا،تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی۔صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ شہباز شریف کے علاوہ بھی کردار میر جعفر اور میر صادق ہیں، وقت آنے پر ان کرداروں کے نام لوں گا۔انہوں نے کہا کہ نیوٹرلز کوبتایا تھا معیشت مشکل سے مستحکم ہوئی ہے، شوکت ترین نے بھی ان کوسمجھایا سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے نقصان دہ ہے، جو اس سازش کا حصہ بنے، ان سے سوال کرتا ہوں، کیا سازش کا حصہ بننے والوں کو پاکستان کی فکر نہیں تھی؟ پاکستان سازش میں شریک لوگوں کی ترجیحات میں نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو لایا گیا، اس سے بہتر تھا پاکستان پرایٹم بم گرا دیتے، جو کرمنلز لائے گئے، انہوں نے ہر ادارہ اور جوڈیشل سسٹم تباہ کردیا، کون سا حکومتی آفیشل ان مجرموں کے کیسزکی تحقیقات کرے گا۔عمران خان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا تھا کرپشن بااثر شخصیات کیلئے بھی ایشو ہے، میں سمجھتا تھا کہ کرپشن پر ہمارا نظریہ ایک ہے لیکن کرپشن اہم شخصیات کیلئے مسئلہ ہی نہیں تھا، میں صدمے میں ہوں کہ یہ لوگ چوروں کو اقتدار میں لائے، مجھے بارہا کہا گیا آپ کرپشن کیسز کے پیچھے نہ پڑیں، مجھے کہا جاتا تھا کہ کارکردگی پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ سازش کرنے والوں نے غلط اندازہ لگایا، انھیں نہیں پتہ تھا مجھے ہٹانے پر اتنیعوام سڑکوں پرنکل آئیں گے۔اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ آخری دن تک اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اچھے رہے، دو معاملات پر اس سے عدم اتفاق رہا، مقتدر حلقے چاہتے تھے عثمان بزدار کو وزارت اعلی سے ہٹاں، انھیں بتایا سندھ میں گورننس اور کرپشن کے حالات بدتر ہیں، عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو لگاتا تو پارٹی میں دھڑے بندی ہو جاتی۔ان کا کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے دوسرا ایشو جنرل فیض کے معاملے پر تھا، میں چاہتا تھا کہ جنرل فیض سردیوں تک ڈی جی آئی ایس آئی رہیں، انہیں برقرار رکھنے کی ایک وجہ افغانستان کی صورتحال تھی۔انہوں نے کہا کہ جنرل فیض کو داخلی سیاسی صورتحال کیلئے بھی برقرار رکھنا چاہتا تھا، مجھے اپوزیشن کی سازش کا جون سے پتہ تھا، ہمیشہ ایسے فیصلے ہوتے رہے کہ میری حکومت کمزور رہے۔ان کا کہنا تھاکہ ن لیگ کے 30 ایم پی ایز فارورڈ بلاک بنانا چاہتے تھے، اگر فارورڈ بلاک بن جاتا تو ن لیگ کی سیاست ختم ہو جاتی لیکن ان ایم پی ایز کو طاقتور حلقوں نے پیغام دیا جہاں ہیں، وہیں رہیں، 8، 10لوگوں کو کرپشن میں سزا ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران خان کا مزید کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے پیغامات آرہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کررہا، میں نے ان لوگوں کے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کااعلان نہیں ہوتا،تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں یوکرین معاملے پر ووٹنگ میں حصہ نہ لینا درست فیصلہ تھا۔اسلام آباد مارچ سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ اسلام آباد مارچ کیلئے تیاری شروع کر دی ہے، جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بہت سے آپشن کھل جاتے ہیں۔علاوہ ازیں مردان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ حقیقی آزادی کی جدوجہد میں شرکت کے لیے آپ کو آنا ہوگا، میں سیاست کے لیے نہیں بلکہ انقلاب کے لیے بلارہا ہوں، جو بھی 70 سال سے کم عمر ہے وہ نوجوان ہے، جب اسلام آباد آنا ہے تو اپنے خوف کی زنجیریں توڑ کر آنا۔سابق وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے قائدین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور آصف علی زرداری امریکا کے غلام ہیں اور نواز شریف سے زیادہ بزدل آدمی زندگی میں نہیں دیکھا، جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ فضل الرحمان کو مولانا نہیں کہوں گا کیونکہ مذہبی علما کی بہت عزت کرتا ہوں، فضل الرحمن نے حکومت میں آکر این ایچ اے کی وزارت حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ لو نے ہمارے سفیر کو کہا کہ اگر عمران خان کو ہٹا دیا تو پاکستان معاف کردیں گے، کیا ہم امریکیوں کے غلام ہیں، ہم ان کے نوکر ہیں؟ ہم ان کے نوکر اور غلام نہیں ہیں، ملک کی قیادت کون کرے گا فیصلہ کوئی مفرور نہیں بلکہ عوام کریں گے۔عمران خان نے کہا کہ میرے لیے سب سے شرمندگی کی بات یہ تھی کہ میں نے بیرون ملک جاکر چین، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے قرضے مانگے، جو قوم قرضے مانگتی ہے اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی، مجھے معلوم ہے کس کس نے سازش کی۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے خلاف مہم چلائی گئی اور اس مہم میں کس کس میڈیا ہاوس کو پیسا دیا گیا اس بارے میں ساری معلومات ہیں، اب میڈیا کے نمائندے عوام سے مہنگائی سے متعلق سوال کیوں نہیں کرتے جیسا کہ وہ ہماری حکومت کے دوران کرتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس سازش کی کھلی تحقیقات کرائیں، سازش کرنے والے ایک میر جعفر کی شکل میرے دل پر نقش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول امریکا جا کر پیسے مانگے گا کہ ہماری مدد کر دیں ورنہ عمران خان واپس آجائیگا۔عمران خان نے کہا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن کو تمام لوٹوں کے بارے میں علم ہے، یہ قانونی مسئلہ نہیں بلکہ اخلاقات کا مسئلہ ہے، اگر الیکشن کمیشن نے لوٹوں کو بچایا تو عوام انہیں بھی معاف نہیں کرے گی۔قبل ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر لکھا کہ ڈالر 193 روپے کا ہونے سے روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر آگیا ہے جو 8 مارچ کو ہماری حکومت میں 178 روپے کا تھا۔چیئرمین تحریک انصاف نے مزید لکھا کہ اسی طرح شرح سود بھی 1998 کے بعد 15 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اسٹاک مارکیٹ 3 ہزار پوائنٹس یا 6.4 فیصد تک گرچکی ہے۔ اس وقت اسٹاک مارکیٹ 604 ارب روپے کی کیپیٹلائزیشن گنوا چکی ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جنوری 2020 کے بعد سے مہنگائی بھی 13.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ سب امپورٹڈ حکومت پر تاریخ کے کم ترین اعتماد کی علامتیں ہیں۔عمران خان نے معیشت کی زبوں حالی کو حکومتی کے پاس واضح پالیسی نہ ہونے کو قرار دیتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا کہ مارکیٹ، پالیسی اور اقدامات کی منتظر ہے جو امپورٹڈ حکومت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔سابق وزیر اعظم نے اپنی ٹویٹ میں یہ انکشاف بھی کیا کہ میں نیاور اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے نیوٹرلز کومتنبہ کیا تھا کہ اگر حکومت گرانے کی سازش کامیاب ہوئی تو ہماری کمزور معاشی بحالی ڈوب جائیگی اور اب یہ ہوچکا ہے۔