نیچھلے طبقے کی فکر
قلم کلامی باقر علی خادم
2018 سے پہلے کی بات ہے کبھی سیاہ تو کبھی سفید لباس زیب تن کیا ہوا ایک شخص کنٹینر پہ چڑھ کے ایک جملہ بار بار کہا کرتے تھے ہمیں اپنے نیچھلے طبقے کو اُپر لانا ہو گا۔ اُس وقت تو خان صاحب کا یہ جملہ کسی لطیفے کے مترادف تھا بھلا یہ کیسے ممکن ہے پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں مجرموں کو بھی امیر اور غریب کا درجہ دے کے حدبندیاں مقرر کر دی گئی ہوں غریب ملزم ہو کے بھی قید کی سلاخوں میں ہو اور امیر مجرم ہوکے بھی عالی شان محلات میں رہ رہا ہو، غریب کو اپنے کیس کی سماعت کا انتظار کرتے کرتے موت آجاۓ اور امیر شام کی درخواست داٸر کرکے صبح کمرہ عدالت میں پیش ہونے کا شرف حاصل کرے، امیر اپنی صحت کا معاٸینہ کروانے کے لیے بھی اہلہ خانہ سمیت سرکاری وساٸل کا بے دریغ استعمال کرکے بیرون ملک چلا جاۓ اور غریب کو کُتا بھی کاٹے تو ملک کے اسپتالوں میں ویکسین تک میسر نہ ہو اور وہ اپنی ماں کے گود میں سر رکھ کے ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان دے دے کوٸ پوچھنے والا نہ ہو تو ایسے بے بسی کے عالم میں خان صاحب کی یہ باتیں مزاق سے کم نہ ہوں گی۔
لیکن وقت گزرتا گیا کپتان کے اس جملے نے شدت اختیار کر لیا یہاں تک کہ 2018 کے عام انتخابات میں آپ کی جماعت کے منشور کا حصہ بن گیا امیر اور غریب کے لیے یکسر نظام متعارف کروانا۔ 26 جولائی 2018 کا سورج متوسط طبقے کے لیے رحمت کی کرنوں کے ساتھ طلوع ہوا۔ خان صاحب وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب ہوۓ۔اقتدار میں آتے ہی آپ کو قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشیت ملی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیسے قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشیت کوسنبھالا جاۓ کبھی وزیر بدلنے پڑے تو کبھی مشیر لیکن کپتان ڈٹے رہے۔ کپتان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہورہا تھا اور ساتھ ہی قومی خزانہ بھی ترقی کی راہ پہ گامزن تھا۔ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے کپتان تنقید کی زد میں رہے قرضے لے کے مہنگائی کم کر سکتے تھے جس طرح پچھلی حکومتوں نے کیا تھا لیکن ایسا نہیں کیا عوام پہ مہنگائی کا بوجھ ڈال کر غریب کو کندھا دے دیا احساس پروگرام کی شکل میں کیونکہ یہ آپ کے منشور کا حصہ تھا نچھلے طبقے کو اوپر لانا۔
ابھی لڑکھڑاتی ہوئی معیشیت کو سنبھالنے کا سلسلہ جاری تھا کہ اُتنے میں ایک اورنئی مصیبت آن پڑی۔ 26 فروری 2020 کو کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا جودیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا نوبت یہاں تک آئی کہ 27 مارچ کو پورے ملک میں لاک ڈاون لگانا پڑا۔ 70 فیصد لوگ گھروں تک محدود رہے جس میں 50 فیصد دیہاڑی دار طبقہ شامل تھا۔ کپتان کو پھر سے نچھلے طبقے کا درد ستانے لگا تو احساس کورونا فنڈ پورے پاکستان میں متعارف کروایا جس سےکروڈوں مستحق افراد مستفید ہوۓ اور یہ سلسلہ بدستور آج تک جاری ہے۔ اس اقدام کو عالمی دنیاے بھی سرہا گیا کہ کیسے پاکستانی حکومت اپنے متوسط طبقے کو احساس فنڈ کے نام سے پیسے دے رہی ہے مشکل کی اس گھڑی میں۔ یہ تو آپ کے منشور کا حصہ تھا نچھلے طبقے کو اوپر لانا۔
عمران خان کے اقتدار میں آنےسے قبل امیر کا پاکستان الگ اور غریب کا پاکستان الگ تھا۔ امیر آدمی اثرورسوخ بنا کر سفارشات کے انبار لگاکر ہفتوں کے کام دنوں میں، دنوں کے کام گھنٹوں میں اور گھنٹوں کے کام منٹوں میں کرواتا۔ جبکہ غریب آدمی دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہوۓ ایک عرصہ گزار دیتا اب اس بدترین نظام کی روداد سناۓ تو سناۓ کس کو یوں اپنی آواز دباکر اپنے ادھورے کاموں سمیت نجانے کتنے لوگ اس دنیا سے چلے گۓ ہیں۔ کپتان اقتدار میں آتے ہی Citizen Portal متعارف کروایا اب ہر آدمی گھر بیٹھے اپنی شکایات کا اندراج کرواسکتا ہے یہاں تک کہ اس کی شناخت بھی منظر عام پر نہیں آتی اور یوں متعلقہ ادارے فوراً نوٹس لےکے مسٸلہ حل کرواتے ہیں ۔ کپتان نے ہر لمحے اپنے متوسط طبقے کی فکر کی ہے کیونکہ یہ آپ کے منشور کا حصہ تھا۔
پاکستان میں آدھے سے زیادہ مریض بیمار ہونے کے ڈر سے ہی بیمار ہوجاتے ہیں۔ ذہنی دباٶ تمام امراض کی جڑ ہے متوسط طبقے کے ذہن میں ایک ہی تلوار لٹکتی ہے کہ ہم بیمار ہوۓ تو کیا ہوگا کیونکہ صحت کا نظام اتنا مہنگا جو ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں نظام صحت بہتر نہیں ہے یہاں تک کہ بنیادی ادویات بھی غاٸب ہوجاتی ہیں۔ پراٸیوٹ اسپتالوں کے دام سنتے ہی بندے پر کئی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اب صحت کے شعبے میں بھی کپتان کو متوسط طبقے کی فکر ہونے لگی تو صحت کارڑ متعارف کروایا اب پاکستان کا ہر شہری ملک کے کسی بھی بڑے اسپتال میں جاکر سالانہ دس لاکھ تک مفت علاج کرواسکتا ہے جہاں جانے کا اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
ہر وقت نچھلے طبقے کے بارے میں سوچنا عمران خان کا جرم بن گیا تو ایک بیرونی مداخلت کے زریعے اقتدار سے ہٹایا گیا۔
نیچھلے طبقے کی فکر
Leave a comment