میز کی آب بیتی
تحریر: جاوید آحمد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف ا لمخلوقات بناکر دنیا کی ہر شے جانوروں سے لے کر نباتات و جمادت تک چرند و پرند اور پوری کائنات کو ان کی تصرف اور خدمات پر مامور کر دیا اور انسان کو قدرت حاصل ہے وہ ان کو اپنے تصرف میں جیسے چاہے اور جب چاہے لا سکتاہے۔
میں ایک معصوم اور ننھا سا پودہ تھا، بڑا خوش و خرم زندگی گذار رہاتھا اور بڑی تمنا تھی کہ میں بھی ایک دن بڑا درخت بن جاوں گا اور دوسروں کے برابر یا ان سے بڑا ہو جاوں او ر باقی جنگل میرے نیچے ہو میں فخر سے دوسروں کی طرف دیکھوں، ہوا مجھے لوری دیتی، بارش مجھے نہلاتی اور سورج کی تپش میری نشونما کرتی، بعض دفعہ کوئی بکری یا چرنے والا کوئی دوسرا جانور گھا س چرتے چرتے مجھے بھی زخمی کرتا اور میرے کوئی شاخ کاٹتا اور پتے کھاتا لیکن میں پھر بھی خوش تھا، جھاڑوں کی سردی کو برداشت کرتا، گرمیوں کی شدت کو برداشت کرتا، ساون کی طوفانوں کو برداشت کرتا میں نشو نما پاتا رہا اور یہاں تک ایک تناور درخت بن گیا میں نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ مجھ سے بڑے درختوں کو کوئی ظالم انسان جنگل میں آکر کاٹتا اور ان کے مختلف ٹکڑے کر کے کسی ٹرک میں ڈال کر کہیں لے جاتا، ایک دن میں نے اپنے نزدیک ہی ایک بڑے اور بوڑھے درخت کو کٹتے ہوے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ کسی روز آپ کی بھی باری آجائے گی یہ انسان بڑا ظالم ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتا اور ایسا ہی ہو ا، اور ایک دن ایک ظالم انسان آیا پہلے اس نے مجھے اوپر سے نیچے دیکھ کر میری لمبائی کا اندازہ کیا اور پھر ایک فیتہ نکال کر میرے تنے کے اردگرد ڈالا اور بڑا خوش ہوا اور اپنے ایک ساتھی سے کچھ کہا اور ان ظالموں نے ایک آرا مشین کو چلایا اور میرے مضبوت اور تنآور جسم کو زمین سے تھوڑا اوپر سے کاٹنے لگے میں نے احتجاج کیا، چیخا چلایا درد کی شدت سے بلبلایا، اور آخر کا سسکتا ہوا اور چنگاڈتا ہو ا دوسرے چھوٹے درختوں اور پودوں کو بھی مسمار کرتا ہو ا زمین بوس ہو ا اور اس بے رحم انسان نے پہلے میرے شاخوں کو ایک ایک کر کے کاٹا اور پھر اس فیتے سے میری لمبائی میں مختلف حصوں میں تقسیم کر کے کاٹتا رہا اور کئی حصوں میں تقسیم کیا اور ایک ٹرک میں لاد کر شہر کی طرف روانہ کیا اور کئی گندی اور بد بودار گلیوں سے گذار کر ایک جگہ پہنچایا اور ایک لکڑمنڈی میں اتارا اور منڈی والے سے معلوم نہیں کتنی رقم لیا اور چلا گیا میں یہاں کی گرمی گرد و غبار اور بدبو کو برداشت کرتا رہا اور پھر ایک دن ایک اور شخص آیا اور لکڑ منڈی میں گھومتا اور دیکھتا ر ہا اور پھر مجھے میرے ساتھیوں سے الگ کیا اور ایک ٹریکٹر پر لاد کر ایک آرا مشین کے پاس لے گیا اور پھر ایک دفعہ اور یہ ظالم مشین مجھے کئی حصوں میں تقسیم کیا اور پھر ایک ترکھان نے مجھے مزید کئی حصوں میں کاٹا اور پھر ایک تیشہ سے مجھے کاٹا اور پھر ایک رندہ مشین سے مجھے نفیس بنایا اور چمکایا اور پھر میرے مختلف حصوں کو جوڑنا شروع کیا اور ہر جوڑ میں کئی کئی کیل ٹھونکتا رہا اور مجھے ا یک شکل دیا اورکہا کہ لو جی گول میز تیار ہو گیا اور جب میں نے دیکھا تو ہم تعداد میں تین تھے پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے ایک بد بودار روغن ہمارے اوپر لگایا اور کہا کہ پالیش بھی ہو گیا اور میں ااور میرے ساتھی اب بڑے خو بصورت میز بن گئے اور پھر میرے دوسرے دونوں ساتھیوں کو ایک باورچی خانے میں سیدھی کر کے رکھا گیا میں شاید ان کو پسند نہ آیا، یا میں فالتو تھا دو بندوں نے مجھے پکڑ کر ایک الماری کے اوپر الٹا کر کے رکھ دیا شروع شروع میں تو میرا دم گٹھتا تھا لیکن آہستہ آہستہ میں عادی ہو گیا لیکن منوں گرد میرے اوپر پڑا تھا اور سانس لینے میں بھی دشواری ہو تی تھی میں جب اپنے دوسرے ساتھیوں کی صفائی ہوتے ہوے دیکھتا تو بڑا رشک محسوس کرتا اور وہ بھی بڑے فخر سے میری طرف دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں کہ دیکھا ہماری کتنی قدر و قیمت ہے لیکن ایک دن ایک مہربان نے آکر مجھے صا ف کرایا اور اٹھوا کر اپنے دفتر میں سجایا اور پھر میں بھی بڑا خوش ہو اکہ چلو میں بھی بے کار نہیں ہوں اور اب یہ مہربان روزانہ مجھے صاف کرتا اور اپنا دفتر کا کام کرتا میں بڑے آرام سے تھا کہ ایک دن ایک منیجر نے آ کر میرے مہربان سے کہا کہ اس میز کو آپ استعمال نہ کریں اس کو یہاں سے اٹھوائیں اور پھر میرا مہربان نے مجبوراََمجھے اٹھوایا اور پھر مجھے اسی پرانے جگہ پر رکھا گیا ہے لیکن مجھ پر پھر سے گرد جمنے لگی ہے معلوم نہیں مجھ میں کیا کمی ہے کہ مجھے کسی کام کے قابل نہیں سمجھا جاتاہے بلکہ ایک بے کار شے کی طرح اس الماری کے اوپر پھینک دیا گیا ہے۔
میز کی آب بیتی
Leave a comment