خود ساختہ مہنگائی
تحریر: جاوید آحمد
ایک ٹیکسی والے سے بات ہوئی صدر تک جارہا تھا، کہنے لگا کہ پنکچر پہلے 80 (اسی) روپے کا لگ جاتا تھا آج پنکچر لگوایا تو ڈیڑھ سو (150)روپے لیا اور احسان بھی کیا کہ ایک سو اسی کا ہے آپ سے تیس روپے کم لیا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک پنکچر ٹاکی کتنا مہنگا ہو گیا ہو گا اگر پہلے دس کا تھا تو آج بیس یا پچیس کا ہو گیا ہوگا، چلو تیس کی صحیح،مزدوری کے ساتھ سو لیکن آپ اندازہ لگائے کہ اسی کے بجائے ایک سو اسی۔ تو کیا آپ کو یقین آتا ہے کہ اتنا مہنگاہوگیاہو گا۔ عابد مجید روڈ پر کسی عزیز کے گھر گئے تھے واپسی پر اوبر کی ایک گاڑی کرائی وہ حضرت جونہی عابد مجید روڈ پر نکلاتو بجائے صدر کے ٹنچ باٹا کی طرف گاڑی موڑ دی تو میں نے پوچھا کہ ادھر کدھر جا رہے ہو تو کہنے لگا کہ قاسم مارکٹ سے باہر نکلتے ہیں میں نے حیرانگی میں پوچھا کہ ادھر کونسی قاسم مارکٹ ہے وہ تو پشاور روڈ پر ہے اس دوران کافی آگے نکل چکے تھے تقریباََ آرمی مڈیکل کالج کے سامنے جا کر واپس مڑنا پڑا،خیر یہ تو چلو غلطی ہو گئی جب ایم ایچ کے پیچھے سے مڑ گئے تو جی پی او کی طرف آنے کی بجائے چوک پر آکر بایئس نمبر کی راہ لینے لگا تو پھر مجھے بھی غصہ آیا اور اسے روک کر کہا کہ حضرت کوئی چرس ورس یا بھنگ تو نہیں پیا،صادق آباد بلال ہسپتال کے پاس جانا ہے اور اُدھر صدر ہے لہٰذا تشریف کی ٹوکری اُس طرف کردو جب جی پی او والے چوک پر مال روڈ پر پہنچا تو کہنے لگا کہ اندر والے روڈوں کا پتہ نہیں چلا ادھر تو جانتا ہوں تو میں نے کہا کہ پھر کیا میٹر پر کچھ زیاد ہ فاصلہ دکھا کر کچھ ریڈنگ زیادہ کر نے کا ارادہ تھا یا کہ واقع ہی نا واقف ہو، ویسے کدھر کے رہنے والے ہو تو کہتا ہے کہ میں تو سلطان کے کھو یعنی چاہ سلطان کا رہنے والا ہوں، پھر خود ہی مہگائی کر ذکر چھیڑا، اور جب میں نے اُسے خوب سنایا تو کہنے لگا کہ آ پ سچ کہتے ہیں میری اپنی دکان ہے جب چینی سستی تھی تو ہفتے میں دو بوری بکتی تھی لیکن جب مہنگی ہو گئی تو پانچ بوری بکنے لگی۔ اور اب سات بوریاں نکلتی ہیں، پھر اندازہ لگائے کہ چینی کی اگر پھکی ماری جائے گی تو معاشیات کا اصول اپنا کام تو دکھا ئے گا یعنی جس چیز کی کھپت زیادہ ہوگی یعنی ڈیمانڈ زیادہ ہو گی تو رسد کم ہو گا اور جب رسد کم ہو گا تو قیمت بڑھ جائے گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں۔
مسلمان خاص کر پاکستانی رمضان کے مقدس مہینے میں چیزوں کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچاتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ روزہ کا اصل کو بھول کر ہمارے علماء بھی تقریر کرتے ہیں کہ یہی ماہ تو کھانے پینے کا ہے تو پھر عوام اندھی تقلید کے عادی لوگ پکوڑوں کی دکان ہو یا ریہڑی ولا، فروٹ کی وکان ہو یا ٹھیلے ولا، پرچوں کی دکان ہو یا میناری کی دکان، سبزی والا ہو یا مرچ مسالے والا۔جوتوں کی دکان ہو یاکپڑے کی دکان پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی اور بے صبر قوم ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جد وجہد میں، اور آج کے دور میں یہ تمام کاروباری دل میں خوش لیکن بظاہر عمران خان کی حکومت کو کوستے ہیں اور ہر ایک نے اپنا اپنا ریٹ لگایا ہو ا ہے، اس پر طرہ یہ کہ ایک کلو خریدنے کی استطا عت والا بھی پانچ پانچ کلو خرید تا ہے تو پھر مہنگائی تو ہو گی اور پھر ہر بدلتے موسم کے ساتھ کاروبار کا موسم بھی بدلتا رہتا ہے تو دکانداروں نے صرف سیل سیل سیل کا ایک بوڑد یا اشتہار آویزاں کرنا ہوتا ہے یہ تو کاروباری حضرات کا یک ٹرک ہے ورنہ وہ تو سارا سال ہی سیل یعنی فروخت کرنے کی غرض سے ہی تو کاروبار کرتے ہیں ورنہ سیل کئے بغیر کیسا کاروبار، البتہ خریداروں کو دھوکہ دینے کی غرض سے کہتے ہیں کہ اس کی اصل قیمت تو یہ ہے لیکن یہ سیل لگی ہے اس لئے اتنے پے دے رہے ہیں اور لوگ دھڑا دھڑ خریدتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ سیل
لگی تھی اس لئے اتنے کا لیا ورنہ یہ تو مہنگا ہے، اس طرح اس خود ساختہ مہنگائی میں خریدار اور دکاندار دونوں برابر کے شریک ہیں، کوئی یہ نہیں سوچتا آیا اس مہنگائی میں کیا میرا بھی کوئی کردار ہے یعنی خریدنے والا کفایت شعاری اور احتیاط سے کم مقدار میں خریدے او ر دکاندار یہ سوچے کہ میں کسی چیز کی بہت زیادہ قمیت تو وصول نہیں کر رہا ہوں کل کو قیامت کے روز جواب بھی دینا ہے تو پھر میرے خیال میں ہر چیز اعتدال پر رہے گی۔
کچھ عرصہ پہلے صادق آباد میں آلو انتہائی مہنگے ہو گئے تھے ایک دن میرا گذر سبزی منڈی سے ہوئی تو لا محالہ طور پر میں نے آلو کی قیمت پوچھی تو پتہ چلاکہ وہاں آلو کی قیمت تو تیس روپے کلو ہے جب کہ صادق آباد میں ریہڑہ والے بھی ستر روپیہ کلو فروخت کر رہے تھے۔ تو ایسی قوم کو ہر چیز مہنگی نہیں ملے گی تو کیا سستی ملے گی جس دکاندار کے پاس جاؤ تو قیمت بتانے سے پہلے عمران خان کی حکو مت کو ضرور کو سے گا وہ صرف اس لئے اپنی مکاری کو اور مہنگا فروشی کو چھپا سکے اور تو اور ایزی لوڈ والے بھی خان صاحب کی حکومت کوکوستے ہیں۔ لیکن میں تو ان کو معاف نہیں کرتا خووب سناتا ہوں کہ آپ لوگوں کی تو خان صاحب کی حکومت نے عیاشی کرائی ہے،ا ٓپ کے تو وارے نیارے ہو گئے ہیں کئی سال پرانی خریدی ہوئی چیز کو بھی ڈبل ٹریپل قیمت لگا کر حکومت نے مہنگائی کیا کہہ کر فروخت کرتے ہو اور نام حکومت کا بد نام کرتے ہو۔اس پر بعض تو چپ ہوتے ہیں اور بعض ہنس کر ٹرخا جاتے ہیں۔پالک سبزی کی ایک گٹھڑی پر کتنا ایک ٹکس لگ گیا ہو گا یا اس کی رسد پر کتنا خرچہ آتا ہو گا کہ دس روپیہ میں ملنے والی ایک گٹھڑی چالیس روپیہ کی ہو گی۔ یہ تو اشیا ء کی خود ساختہ مہنگائی کی بات تھی لیکن اب تو دکانداروں نے اپنا سامان نہ صرف فٹ پاتھ پر رکھنا شروع کیا بلکہ بعض لوگوں نے فریج، ریفریجریٹر اور واشنگ مشین جیسے موٹے آئٹم سڑک پر سجانا شروع کیا ہوا ہے، پچھلے دو سالوں سے کسی مجسٹریٹ کسی اسسٹنٹ کمشنر کسی تحصیلدار کو مارکٹ میں چھاپا مارتے یا اشیاء کی قیمتوں کا لسٹ چک کرتے نہیں دیکھا گیا ہے بلکہ وہ تو ان روکاوٹوں کو دیکھ کر خوش ہو تے ہو ں گے کہ عمران خان ہم سے کام لے کر تو دکھائے، سڑک پر پیدل چلنے والوں کے لئے راہ بنانا محال ہو چکا ہے وہ اپنے آپ کو تو کوستے ہیں
کہ کس عذاب میں پھنس گئے ہیں ہر آدمی اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہے گاڑی والے پیدل چلنے والے جیتے جاگتے انسان کو کیڑے مکوڑے کی حثیت بھی نہیں دیتے نہ صرف گاڑی والے بلکہ بعض پیدل چلنے والے بھی کسی کو جگہ دینے کو تیار نہیں ایک عجیب سا سماں ہے۔
ایک دن راجہ بازار گیا اور ایک گرم مسالہ والے دوکاندار سے کچھ اشیاء خریدا قیمت پوچھی انتہائی مناسب قیمت بتا یا لیکن حکومت کو بُرا بھلا نہیں کہا تو میں نے جان بوجھ کر ان سے کہاکہ آُ پ لوگوں کا تو عمراخان نے عیاشی کرائی ہے ایک ہی چیز کی قیمت ہر دکاندار نے اپنی مرضی سے رکھا ہے اور گالی حکومت کو دیتا ہے تو وہ شخص مسکرایا اور کہنے لگا کہ میں تو کہتا ہوں کہ اگلے پانچ سال بھی عمران کے ہی آجائیں تو میں نے ایک اور نوالہ دیا آپ نے عمران کا کچھ نہیں کہا تو کہنے لگا میں کچھ نہیں کہوں گا کیو نکہ اللہ والا آدمی ہے یہ پہلا شخص دیکھا جس نے حکومت کی تعریف کی ورنہ ہر دکاندار اپنے آپ کو ایماندار دیکھانے کی غرض سے حکومت کو بُرا بھلاکہہ کر اپنی چیز اپنی من مانی قیمت پر فروخت کرتا ہے ہر آدمی روتا ہے کہ کاروبار نہیں لیکن چند منٹ رک کر اس دکاندار کو دیکھو تو اس کے پاس چند منٹ بھی آرام کے نہیں ہو تے وہ سیٹ پر بیٹھ ہی نہیں سکتا کوئی نہ کوئی گاہک آجاتا ہے اور کچھ نہ کچھ خرید کر ہی جاتا ہے لیکن کسی کے زبان پر شکر نہیں، لوگ کہتے ہیں کہ مہنگائی ہے لیکن کیا ایک زمیندار سبزی کی گٹھڑی پچھلے سال کے ریٹ پر دیتا ہے ایک دیسی مرغی کیا دو سال پہلے کی طرح کوئی زمیندار فروخت کرتا ہے اگر نہیں تو پھر آپ بتائے کہ مہنگائی کیسے ہو گئی۔ ایک مجیسٹریٹ کا کام یہ ہے کہ وہ مارکیٹ کے نرخوں کو کنٹرول کرے اگر مجسٹریت میز پر ٹانگیں پھیلا کر ایر کنڈیشنر آن کر کے سوتا ہے تو عمران بے چارہ کتنے لوگوں کو چک کرے گا کس کس کے پیچھے جائے گا۔ اگر لوگوں میں انسانیت ختم ہو توعمران خان کیا کرے گا۔ قومیں صرف ایک حکمران، یا کسی ایک وزیر کے ایماندار ہونے سے نہیں بنتیں بلکہ اس کے لئے ایک عام شہری سے لے کر ایک وزیر تک ایک سپاہی سے ایک جنرل تک ایک چبڑاسی سے لے کر ایک سکریٹری ایک کانسٹیبل سے لے کر آ ئی جی تک سب کو اپنے اپنے فرائض کی اداءئگی اور ایماندار ہو نا پڑے گا۔ ورنہ یہ خود ساختہ مہنگائی قوم کے جوڑوں میں بیٹھ جائے گی۔
خود ساختہ مہنگائی
Leave a comment