ماضی کی حکومتوں کی طرح کسی میڈیا ہاؤس کو یہ نہیں کہا کہ حکومت پر تنقید نہ کریں،اگر میں تنقید برداشت نہیں کر سکتا ہوں تو مجھے عوامی نمائندہ نہیں ڈی سی بننا چاہیے، فتح اللہ خان
گلگت بلتستان کے صحافی مشکل حالات میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں،صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے، صدر پریس کلب خورشید احمد کا سمینار سے خطاب
گلگت(جہانگیر ناجی)عالمی یومِ آزادی صحافت اور صحافیوں کے استعداد کار میں اضافے کے حوالے سے سنٹرل پریس کلب گلگت میں منعقدہ دو روزہ سیمنار کے پہلا سیشن گلگت میں بحیثیت مہمان خصوصی صوبائی وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پریس فاونڈیشن بل میں ضروری ترامیم کی گئی ہیں اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں بل کی منظوری دی جائے گی۔اس بل کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کے صحافیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو جائے گا صوبائی وزیر نے کہا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کی استعداد کار میں اضافے کے لئے ورکشاپس کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ گلگت بلتستان میں صحافیوں کے مسائل کے حل اور انکے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں آسانی کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے،صوبائی وزیر اطلاعات،منصوبہ بندی و ترقی فتح اللہ خان نے کہا ہے کہ آج میں فخریہ انداز سے کہتا ہوں کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح ہم نے کسی بھی میڈیا ہاؤس کو یہ نہیں کہا کہ آپ حکومت پر تنقید کرتے ہیں،لہذان کا اشتہاربند کرو،ہم نے قطعاً ایسا نہیں کہا ہے،اگر میں تنقید برداشت نہیں کرسکتا ہوں تو مجھے ڈی سی بننا چاہیے،عوامی نمائندہ نہیں اگر میں عوامی نمائندہ ہوں تو میری کارکردگی اچھے اور برے کاموں پر بات ہوگی،جس کو میں برداشت کرسکوں۔سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، میڈیا معاشرے کا اہم ستون ہے، دنیا کے کئی ممالک میں صحافت کو اول درجے کی حیثیت حاصل ہے،میڈیا کی وجہ سے حکومتیں بنتی اور گرتی ہیں، موجودہ حکومت صحافت کی آزادی پر یقین رکھتی ہے،گلگت بلتستان میں صحافت نے بہت زیادہ ترقی کی ہے، گو کہ صوبے میں صحافت کی عمر اتنی نہیں ہے ورکنگ صحافیوں کے لئے ہماری حکومت بہتر سوچ رہی ہے آنے والے وقتوں میں ورکنگ صحافیوں کے لئے بہتر ہوگا،پریس فاونڈیشن ایکٹ آنے والے اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جائے گا،ایکٹ میں جو خامیاں تھیں،ان کو میڈیا ہاوسز کے ساتھ ملکر دور کیا گیا ہے اور اسمبلی میں ٹیبل کیا گیا ہے۔سینٹرل پریس کلب گلگت میں عالمی یوم صحافت اور صحافیوں کی استعداد کار بڑھانے کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج گلگت بلتستان میں آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کے لیے تمام میڈیا سے وابستہ صحافی جمع ہے،ہم گلگت بلتستان میں صحافیوں کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،میں ہمیشہ ایک مثال دیتا ہوں دو مکھیوں کا ایک شہد کی مکھی ہوتی ہے اور ایک گٹر میں بھٹنے والی مکھی ہوتی ہے شھد کی مکھی ہمیں شہد دیتی ہے جو ہم کھاتے ہیں اور دوسری مکھی گٹر میں ہوتی اس لئے ہر انسان میں بھی شہد اور گٹر والی سوچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کا شعبہ انتہائی چیلنجنگ ہے، ہر جگے پر ان کو پہنچنا ہوتا جس میں ان کی جان بھی چلی جاسکتی ہے جس طرح ہمارے ملک کے محافظ سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں راتوں کو جاگ کر جن کی وجہ سے ہم آرام سے سوجاتے ہیں اسی طرح میڈیا بھی ایک رسکی شعبہ ہے جہاں کسی چیز کی بھی فکر نہیں کیا جاتا ہے۔۔قبل ازیں سنٹرل پریس کلب کے صدر خورشید احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں صحافی مشکل حالات میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں صحافیوں کی کم سے کم اجرت پچیس ہزار ہونی چاہئے۔گلگت بلتستان میں صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے صوبائی سطح پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے،دو روزہ سمینار محکمہ اطلاعات،گلگت بلتستان رولر سپورٹ پروگرام،قراقرم کو آپریٹیو بینک اور اے کے آر ایس پی کے اشتراک سے کرایا جا رہا ہے آج کے آخری سیشن کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید ہونگے تقریب کے آخری سیشن میں وزیر اعلیٰ نو منتخب صدر و کابینہ سنٹرل پریس کلب گلگت سے ان کے عہدوں کا حلف بھی لینگے۔
آزادی صحافت پر مکمل یقین، کسی میڈیا ہاؤس کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا،وزیر اطلاعات
Leave a comment